Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
تم اس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے اور نہ ان کے حال پر اپنا دل کڑھاؤ۔ انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھکو
آیت نمبر 88 تا 89 آنکھیں لمبی نہیں ہوتیں۔ لا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجا منھم (15 : 88) “ تم اس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو۔ جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ”۔ درحقیقت نظریں پھیلتی اور لمبی ہوتی ہیں لیکن للچائی نظروں کی تعبیر ان الفاظ میں کی گئی کہ گویا آنکھیں نکل کر لمبی ہوگئی ہیں۔ تخیل کی یہ تعجب انگیز اور طرب آمیز تصویر کشی ہے۔ مفہوم یہی ہے کہ اے رسول ، ان چیزوں کی طرف توجہ ہی نہ کرو ، ان کو اہمیت ہی نہ دو ، بعض مردوں اور عورتوں اور طبقوں کو جو یہ دولت دی گئی ہے اس کی اہمیت کچھ بھی نہیں ہے۔ ان چیزوں کو زیادہ اہتمام سے نہ دیکھو۔ ان کو خوبصورت نہ سمجھو ، ان کو دیکھ کر تمہاری نظریں خیرہ نہ ہوجائیں اور تم ان کی تمنائیں نہ کرنے لگو۔ یہ تو زائل ہونے والی چیزیں ہیں ، یہ حق نہیں ہیں ، باطل ہیں جبکہ اے پیغمبر ، آپ تو عظیم سچائی ، مثانی اور قرآن عظیم کے حامل ہیں۔ اس کا یہ مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ دنیا میں محروم طبقات کو حالت محرومیت ہی میں چھوڑ دیا جائے ، اور منعم اور عیش پرست لوگوں کو ان کے مال و منال میں غرق اور مست چھوڑ دیا جائے جبکہ اعلیٰ اقدار مٹ جائیں اور معاشی عدل ختم ہوجائے اور دنیا مستقلاً محرومین اور مترفین کے درمیان منقسم ہوجائے۔ اسلام جو سچائی پر قائم ہے اور جو یہ تعلیم دیتا ہے کہ حق اس کائنات کی روح ہے تو وہ کیسے اس قسم کی ظالمانہ اور غیر عادلانہ صورت حال کو جاری رکھنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ یہاں اس کا ایک خاص مقامی مفہوم ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ کو رشد و ہدایت کی جو دولت دی گئی ہے وہ ان لوگوں کی زرق وبرق زندگی اور دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ لہٰذا آپ ان سرمایہ داروں کو نظر انداز کردیں اور مخلص مومنین کی طرف متوجہ ہوں ۔ کیونکہ یہ اہل ایمان جو دنیاوی اعتبار سے اگرچہ غریب ہوں گے لیکن یہ اس سچائی کے حاملین ہیں جس کے اوپر اس کائنات کی تخلیق کی گئی ہے اور ان تمام چیزوں کی تخلیق کی گئی ہے جو اس کائنات کے درمیان ہیں۔ دنیا دار لوگ تو باطل کے پیرو کار ہیں جو عارضی چیز ہے اور اس کا اس کائنات کی اصل حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ولا تحزن علیھم (15 : 88) “ اور ان کے حال پر اپنا دل نہ کڑھاؤ ”۔ یہ فکر نہ کرو کہ ان لوگوں کا انجام نہایت ہی بھیانک ظاہر ہونے والا ہے۔ قیامت کے دن یہ برا انجام اس حق کا تقاضا ہے لہٰذا ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ واخفض جناحک للمومنین (15 : 88) “ اور ایمان لانے والوں کی طرف اپنے پر جھکاؤ ”۔ یہاں نرمی ، محبت اور شفقت کی تعبیر اس طرح کی گئی ہے کہ جس طرح پرندہ اپنے بچوں کے سامنے پر بچھاتا ہے۔ یہ نہایت ہی مصور انداز تعبیر ہے اور اسے قرآن کریم بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص فنی انداز ہے۔ وقل انی انا النذیر المبین (15 : 89) “ اور کہہ دو کہ میں تو صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں ”۔ دعوت کا موثر اور حقیقی طریقہ ہی یہ ہے کہ بات واضح طور پر کہو ، یہاں موقعہ و محل چونکہ مکذبین اور مذاق کرنے والوں کا تھا۔ یہاں صرف ڈراوے کا ذکر کیا گیا ہے۔ بشارت کو ترک کردیا گیا ہے۔ کیونکہ خطاب ان لوگوں سے تھا جو دنیا پرست ہیں اور اس سچائی پر غوروفکر نہیں کرتے جو تخلیق کائنات کی بنیاد ہے جس کے اوپر قرآن آیا ہے اور جس کے مطابق قیامت برپا ہوگی۔ تخلیق کائنات کی عظیم سچائی اور فاتحہ اور قرآن عظیم کے ذکر کے موقعہ پر یہاں یہ بھی بتا دیا گیا کہ رسولان سابق کے بعض معصبین قرآن کریم پر غور نہیں کرتے۔ اس کی بعض باتوں کو تو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی جو باتیں ان کی کتابوں سے موافق ہیں ان کو تسلیم کرتے ہیں اور جو باتیں زیادہ ہیں ان کو نہیں مانتے حالانکہ قرآن کریم اللہ کی آخری اور مکمل کتاب ہے اور اس میں وہ تمام سچائیاں جمع کردی گئی ہیں جن پر کتاب سابقہ مشتمل تھیں۔
Top