Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 17
اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس جو يَّخْلُقُ : پیدا کرے كَمَنْ : اس جیسا جو لَّا يَخْلُقُ : پیدا نہیں کرتا اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا۔ پس تم غور نہیں کرتے
پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے ، دونوں یکساں ہیں ؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے ؟
آیت نمبر 17 تا 21 اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا۔ یہ نتیجہ نہایت ہی موزوں وقت میں نکالا جاتا ہے ، ایسے حالات میں کہ نفس انسانی اور عقل سلیم اس کے مضمون کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ افمن یخلق کمن لا یخلق (16 : 17) ” پھر جو پیدا کرتا وہ اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے دونوں یکساں ہیں “۔ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ کیا کوئی حساس اور غوروفکر کرنے والا انسان اس ذات والا صفات کو جس نے یہ عظیم الشان کائنات کی تخلیق کی ہے اس شخص کے برابر تصور کرسکتا ہے جس نے کوئی چیز بھی پیدا نہیں کی۔ نہ بڑی اور نہ چھوٹی۔ افلا تذکرون (16 : 17) ” کیا تم ہوش میں نہیں آتے “۔ اس کے لئے تو محض یادداشت تازہ کرنے کی ضرورت ہے ، یہ امر تو تمہاری فطرت کے اندر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کے کئی رنگ اور کئی پہلو بیان کرنے کے بعد یہ کہا : وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا (16 : 18) ” اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے “۔ شکر ادا کرنا تو دور کی بات ہے اس لیے کہ نہ ان کا شمار ممکن ہے اور نہ شکر ، بلکہ اللہ کے اکثر انعامات ایسے ہیں جن کے بارے میں ابھی تک انسان کو علم ہی حاصل نہیں ہوسکا۔ کیونکہ بعض امور کو انسان روٹین کے امور سمجھتا ہے۔ ان کا اسے شعور ہی نہیں ہوتا۔ اسے تب احساس ہوتا ہے جب کوئی نعمت چھن جاتی ہے۔ ذرا انسان کے جسم کی میکان کی ترکیب کو دیکھو ! جس کا ہر حصہ ایک فریضہ ادا کر رہا ہے اور انسان کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی پرزۂ جسم ناکارہ ہوجائے۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر عظیم نعمت سے محروم ہوگیا ہے۔ بس انسان پر تقصیر اور ضعیف کی مدد کو تو اللہ کی صفت رحمت اور صفت عفو ریت پہنچتی ہے۔ ان اللہ لغفور رحیم (16 : 18) ” بیشک اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا رحیم ہے “۔ وہ خالق ایسی ذات ہے جو ہمارے کھلے اور پوشیدہ تمام امور سے واقف ہے۔ واللہ یعلم ما تسرون وما تعلنون (16 : 19) ” اور اللہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی “۔ لہٰذا یہ بات تعجب انگیز ہے کہ لوگ اللہ کی ذات کو ان اشخاص و اشیاء کے ساتھ برابر کرتے ہیں جو نہ کوئی حقیر سی شے بھی پیدا کرسکتے ہیں ، نہ کوئی چیز جانتے ہیں ، بلکہ وہ تو مردہ ہیں ، ان کے اندر زندگی داخل ہی نہیں ہو سکتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ شعور نہیں رکھتے۔ والذین یدعون ۔۔۔۔۔ وھم یخلقون (20) اموات ۔۔۔۔۔ یبعثون (21) (16 : 20- 21) ” اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں ، مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا “۔ یہاں جو بعث بعد الموت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے خالق تو وہ ہوتا ہے جسے بعث کا علم ہو ، کیونکہ تخلیق کی تکمیل تب ہوگی جب قیامت برپا ہوگی اور اس وقت تمام ذی عقل افراد کو ان کے کئے کی جزاء وسزا دی جائے گی۔ لہٰذا ایسے خدا جن کو بعث بعد الموت کا علم ہی نہیں ہے وہ خدایا الٰہ ہونے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ یہ تو ایک مذاق ہے کہ ایک خالق کو نہ اپنی مخلوق کا پتہ ہو اور نہ یہ علم ہو کہ اس مخلوق کو کب اٹھایا جائے گا۔
Top