Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 22
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مُّنْكِرَةٌ : منکر (انکار کرنیوالے) وَّهُمْ : اور وہ مُّسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرنے والے (مغرور)
“ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑگئے ہیں۔
درس نمبر 120 ایک نظر میں درس سابق میں ہمیں بتایا گیا کہ خالق کائنات کی اس عظیم مخلوق میں بیشمار آیات و نشانات موجود ہیں۔ اس عظیم تخلیق میں حضرت انسان کے فائدے ہی فائدے ہیں اور یہ کہ خالق حقیقی انسان کے ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے ۔ جبکہ جن ہستیوں اور اشیاء کو تم الٰہ سمجھتے ہو ، ان کی کوئی تخلیق نہیں ہے۔ وہ خود مخلوق ہیں ، وہ کسی چیز کا علم و شعور نہیں رکھتے ، بلکہ وہ مردہ ہیں اور ان کو اب اس جہان میں زندگی حاصل نہیں ہو سکتی ، یا وہ حیات کے قابل ہی نہیں ہیں۔ نیز ان ہستیوں کو اس قدر بھی معلوم نہیں ہے کہ سزاء و جزاء و جزاء کے لئے ان کو کب اٹھایا جائے گا۔ یہ تمام دلائل قطعاً اس بات کو ثابت کردیتے ہیں کہ یہ ہستیاں عبادت کے لائق نہیں ہیں اور یہ کہ عقیدۂ شرک سرے سے باطل اور لغو ہے۔ اس سورة میں عقیدۂ توحید کے بیان کا یہ پہلا دور تھا جس میں قیام قیامت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ اس سبق میں بھی وہ مضمون ہے جو ہم نے پچھلے سبق میں چھوڑا۔ بیان توحید کا یہ دوسرا دور ہے ، اس کا آغاز اس دعویٰ سے ہوتا ہے کہ تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے۔ اور جو لوگ صرف ایک ہی الٰہ کو نہیں مانتے درحقیقت ان کے دل منکر ہیں۔ چونکہ انکار ان کے دلوں کے زند جاگزیں ہے اسی لیے اس کائنات کے شواہد و افرہ کے ہوتے ہوئے بھی وہ اقرار نہیں کرتے۔ دل میں انکار کی جاگزینی کے ساتھ ساتھ یہ لوگ غرور اور کبر کی بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ کبر بھی انہیں حقیقت کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے۔ یہ مضمون ایک موثر منظر پر یوں ختم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات میں تمام سائے در حقیقت ذات کبریا کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس کائنات کے تمام جانور بھی اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ملائکہ بھی الٰہ واحد کے سامنے جھکتے ہیں جن کی ذات استکبار سے خالی اور جن کے قلوب خوف سے پاک ہیں اور ہر وقت بلا کسی چوں و چرا کے اللہ کے احکام بجا لاتے ہیں اور اطاعت امر کے یہ مظہر مستکبرین کے استکبار کے بالمقابل بیان ہوئے جو اس سبق کے آغاز میں بیان ہوا۔ اس سبق کے آغاز اور اختتام کے درمیان قرآن مجید ان مستکبرین کے نقطہ نظر کو بھی قارئین کے سامنے رکھتا ہے کہ ان کا موقف کیا ہے ؟ یہ کہ وحی اور قرآن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ پرانے قصے ہیں اور یہ کہ وہ کیوں شرک کرتے ہیں ؟ وہ ان چیزوں کو کیوں حرام قرار دیتے ہیں جن کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی مرضی ہے ، اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ کب ایسا کرسکتے۔ قیامت کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ وہ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ ہرگز مردوں کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا۔ ان کے ان تمام مزعومات کو اس سبق میں سختی سے رد کیا جاتا ہے اور رد کا انداز یہ ہے کہ جب قیامت کے روز یہ اٹھیں گے تو یہ بذات خود اپنے ان نظریات کا صاف صاف انکار کردیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہلاک شدہ امتوں کے بعض واقعات بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں اور ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ تم پر بھی رات اور دن کی کسی گھڑی میں اسی طرح عذاب آسکتا ہے جبکہ آپ کو کوئی توقع نہ ہوگی اور بعض صورتیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں کہ تم کو عذاب کی توقع ہوگی اور تم انتظار کر رہے ہوگے۔ اس کے بالمقابل اس سبق میں مومنین کے موقف اور نظریات کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے ، خصوصاً جبکہ موت اور بعث بعد الموت کے وقت ان کا مکالمہ فرشتوں سے ہوگا ۔ اس طرح یہ سبق ختم ہوتا ہے جس میں خشوع و خضوع اور اطاعت وامتنال امر الٰہی کے مناظر بھی ہیں اور انکار کے بھی اور یہ پوری کائنات ، اس کے سائے ، فرشتے اور گردش لیل و نہار اور ارض و سما سب کے سب امتثال امر الٰہی کے نشانات ہیں۔ آیت نمبر 22 تا 23 ترجمہ : یہاں اللہ وحدہ پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان کو یکجا کیا گیا ہے بلکہ اللہ وحدہ پر ایمان کا لازمی نتیجہ آخرت پر ایمان کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ اللہ وحدہ کی بندگی کا براہ راست تعلق عقیدۂ آخرت اور جزاء وسزا کے قیام سے ہے۔ صرف اسی صورت میں خالق حقیقی کی حکمت تخلیق کا اظہار اور مکمل انصاف ہو سکتا ہے۔ الھکم الہ واحد ( 16 : 22) “ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ”۔ اس سورة میں تخلیق باری کے جو نشانات گنوائے گئے۔ اللہ کے جن جن انعامات کا ذکر ہوا ، اور اللہ کے علم و حکمت کی جن باتوں کو بیان کیا گیا ، وہ سب اس حقیقت عظیہ کی متقاضی ہیں کہ اللہ ایک ہے ، اس کے آثار اس کائنات کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت میں عیاں ہیں ، اور ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور باہم تعاون اور توافق پایا جاتا ہے اور یہ تمام قوانین ہمقدم ہیں۔ لہٰذا جو لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ آخرت کو تسلیم نہیں کرتے۔ جو لوگ اللہ کی تخلیق ، اس کی وحدانیت اور اس کی حکمت اور عدل پر ایمان لاتے ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ پھر قیام قیامت پر ایمان لائیں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کا سبب دلائل و نشانات کی کمی نہیں ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ انکار کی علت خود ان کی ذات کے اندر پوشیدہ ہے۔ ان کے مزاج میں انکار ہے اور ان کے دل انکار کرنے والے ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں پہلے سے انکار بیٹھا ہوا ہے۔ اس لیے وہ دلائل وبراہین کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور دلائل وبراہین کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے ؟ اس لیے کہ وہ مستکبرین ہیں اور اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ وہ نہ دلائل کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ حضرت نبی ﷺ کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اللہ کی بندگی کرنا نہیں چاہتے۔ لہٰذا انکار کرتے ہیں اور اس کا حقیقی سبب خود ان کے نفوس کے اندر ہے۔ اللہ جس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوق کے ہر کل پرزے سے واقف ہے ، وہ ان امور سے بھی واقف ہے جو پوشیدہ ہیں اور ان سے بھی جو ظاہر ہیں وہ لاریب سب کچھ جانتا ہے اور ان کے اس رویے کو ناپسند بھی کرتا ہے۔ انہ لا یحب المسکتبرین (16 : 23) “ اور اللہ ان لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہیں ”۔ ایک متکبر دل سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کائنات کے دلائل و شواہد پر مطمین ہوجائے اور سر تسلیم خم کر دے۔ چناچہ وہ اللہ کی طرف سے ناپسندیدہ لوگ ہیں کیونکہ وہ غرور نفس میں مبتلا ہیں اور اللہ ان کے حالات اور حقیقت سے خوب واقف ہے اور ان کے ہر ظاہر و باطن سے بھی واقف ہے۔
Top