Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 38
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُ١ؕ بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ : سخت اَيْمَانِهِمْ : اپنی قسم لَا يَبْعَثُ : نہیں اٹھائے گا اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّمُوْتُ : جو مرجاتا ہے بَلٰى : کیوں نہیں وَعْدًا : وعدہ عَلَيْهِ : اس پر حَقًّا : سچا وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
” یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ” اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا “۔۔۔۔ اٹھائے گا کیوں نہیں ؟ یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اب منکرین اور مستکبرین کی تیسری کٹ حجتی :۔ آیت نمبر 38 تا 40 جب سے اللہ نے اپنے رسول بھیجے ہیں اور انہوں نے بعث بعد موت سے ڈرایا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام شروع ہوا تو اکثر لوگ بعث بعد الموت کے عقیدے کے بارے میں خلجان میں مبتلا رہے ہیں۔ اہل قریش بھی اللہ کے نام کی سخت سے سخت قسمیں کھا کر یہ کہتے تھے کہ اللہ مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا۔ یہ لوگ اللہ کے وجود کے تو قائل تھے لیکن اس بات کے قائل نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے اپنی اصلی حالت میں دوبارہ اٹھائے گا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ کام تو بہت ہی مشکل ہے کہ جب انسان گل سڑ کر ذرے ذرے ہوجائے تو پھر کس طرح جمع ہوگا۔ لیکن ان لوگوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ اللہ نے پہلی بار کس طرح ان ذرات کو حیات بخشی۔ یہ لوگ قدرت الٰہیہ کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ سکے اور خدا کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کیا۔ اللہ کے لئے کسی چیز کا ایجاد کرنا کچھ ممکن نہیں ہے۔ اللہ جب چاہتا ہے تو کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہوجا ، پھر وہ ہوجاتی ہے۔ نیز انہوں نے یہ بھی نہ سوچا سکہ بعث بعد الموت کی حکمت کیا ہے۔ بیشمار امور اس جہان میں ایسے ہیں جو اپنے قدرتی انجام تک نہیں پہنچتے۔ اس جہان میں حق و باطل کے بارے میں لوگوں کے درمیان سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہدایت و ضلالت کے بارے میں لوگوں کے تصورات مختلف ہیں۔ خیروشر کا معیار مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ اس جہان میں ہی نہیں چکاتا کیونکہ مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ لوگوں کو اس جہاں میں مہلت و امتیاز دیا جائے اور یہاں ہی سب کو جزاء و سزا نہ دے دی جائے۔ ان امور کا فیصلہ قیامت میں بعث بعد الموت کے وقت ہوتا ہے۔ قرآن کریم اس کا فرانہ کٹ حجتی کو آغاز ہی میں رد کردیتا ہے اور اس غلطی اور غلط سوچ کو اللہ تعالیٰ یوں دور کرتا ہے کہ بلی وعدا علیہ حقا (16 : 38) ” یہ تو ایک وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے “۔ اور جب اللہ کسی بات کا ارادہ کرلے تو اس کی خلاف ورزی کسی حال میں بھی نہیں ہوتی۔ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (16 : 38) ” مگر اکثر لوگ جانتے نہیں “ کہ اللہ کے عہد کی حقیقت کیا ہوتی ہے یعنی وہ اٹل ہوتا ہے۔ پھر اللہ کے اس فیصلے کے پیچھے ایک گہری حکمت بھی ہے۔ لیبین لھم الذی ۔۔۔۔۔ کانوا کذبین (16 : 39) ” اور ایسا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ، اور منکرین حق کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ کس بات میں ؟ اس بات میں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔ اس بات میں کہ وہ رسول کو جھوٹا سمجھتے تھے ، اس بات میں کہ ان کے نزدیک قیام قیامت ممکن نہیں ہے۔ نیز اپنے اعمال و اعتقادات وغیرہ ہیں۔ رہا اس کا عملاً قیام تو وہ کوئی مشکل نہیں۔ انما قولنا۔۔۔۔۔۔ کن فیکون (16 : 40) ” ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لئے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں کہ ہوجا اور بس وہ ہوجاتی ہے “۔ اور قیام قیامت بھی ایسے ہی حالات میں سے ایک حالت ہے جوں ہی ارادہ الٰہی اس طرف متوجہ ہوا وہ برپا ہوجائے گی۔
Top