Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق (حکمت) کے ساتھ تَعٰلٰى : برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے ، وہ بہت بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
آیت نمبر 3 تا 4 وہی بات کہ تخلیق کائنات حق پر ہے۔ خلق السموت والارض بالحق (16 : 3) “ اس نے زمین و آسمان کو برحق پیدا کیا ہے ”۔ گویا اس کی تخلیق کا بنیادی عنصر حق ہے۔ اس کائنات کو حق کے مطابق چلایا جا رہا ہے اور اس کائنات کو چلانے اور اس کے اندر موجود تمام مخلوقات کو چلانے کا بنیادی عنصر اور بنیادی قوت حق اور سچائی ہے۔ اس کائنات کی کوئی چیز عبث ، اتفاقی اور بےمقصد نہیں ہے۔ یہ چیز سچائی پر قائم ہے۔ سچائی کے ساتھ وابستہ ہے ، وہ سچائی کی طرف بڑھتی ہے اور اس کا انجام بھی سچائی کے مطابق ہوگا۔ تعلی عما یشرکون (16 : 3) “ وہ بہت بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں ”۔ اللہ لوگوں کے شرک سے بہت بلند اور دور ہے ، اللہ جو خالق سماوات والارض ہے ، اس کے ساتھ خود اس کی مخلوق میں سے بعض چیزوں کو شریک کرنے کی تک کیا ہے ؟ لہٰذا اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کے شریک ہونے کے لائق ہی نہیں ہے ، لہٰذا وہ واحد لا شریک ہے۔ خلق الانسان من نطفۃ فاذا ھو خصیم مبین (16 : 4) “ اس نے انسان کو ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے وہ صریحاً جھگڑالو ہستی بن گیا ”۔ اس کے آغاز کو دیکھو اور اس کی تکمیل کے بعد اس کے نخروں کو دیکھو کس قدر عظیم فرق ہے۔ اس حقیر اور سادہ بوند کو دیکھو اور پھر ایک مکمل جھگڑالو اور خالق کے مقابل میں آنے والے اس حضرت کو دیکھو کہ وہ خود خالق کے ساتھ مجادلہ کرتا ہے ، خالق کے وجود تک کا منکر ہوجاتا ہے یا اس کی وحدانیت کا انکار کر کے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتا ہے۔ اس کی حالت نطفہ اور حالت جدال کے درمیان زمان و مکان کا کوئی بہت بڑا فاصلہ بھی نہیں ہوتا ۔ قرآن بھی ایسا انداز تعبیر اختیار کرتا ہے کہ یہ فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ انسان کے آغاز و انجام میں یہ فرق جس قدر عظیم اور واضح ہے اسی طرح اچانک ہے۔ چناچہ ایک ہی لمحے میں انسان کے سامنے دو مختلف مناظر آجاتے ہیں۔ ایک وہ منظر کہ انسان ایک حقیر بوند ہے اور دوسرا وہ منظر کہ وہ کامل ہو کر ناز نخرے کرتا ہے اور خود خالق کے بالمقابل آکھڑا ہوتا ہے۔ تصویر کشی کا یہ اعجاز بھی ہے اور ایجاز بھی یعنی مختصر ترین الفاظ میں معجزانہ طرز ادا۔ اب ذرا منظر کائنات پر غور کریں ، یہ ایک وسیع منظر ہے۔ زمین و آسمان کا وسیع دائرہ جس میں حضرت انسان کھڑا ہے۔ اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی یہ پوری کائنات انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے۔ اس میں بحث کا آغاز ان جانوروں سے کیا جاتا ہے جو واضح طور پر خادم انسان ہیں۔
Top