Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 79
اَلَمْ یَرَوْا اِلَى الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ١ؕ مَا یُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
اَلَمْ يَرَوْا : کیا انہوں نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الطَّيْرِ : پرندہ مُسَخَّرٰتٍ : حکم کے پابند فِيْ : میں جَوِّ السَّمَآءِ : آسمان کی فضا مَا : نہیں يُمْسِكُهُنَّ : تھامتا انہیں اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں
کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں ؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے ؟ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں
پرندے زمین و آسمان کی فضا میں مسخر ہیں۔ یہ اسی میں اڑتے پھرتے ہیں ، ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ یہ منظر ہم بار بار دیکھتے ہیں اور بار بار دیکھنے کی وجہ سے اس کے اندر جو عجوبہ ہے ، وہ غیر محسوس ہوگیا ہے۔ اس کی طرف انسان کا دل و دماغ تب توجہ کرتا ہے جب وہ جاگنے والا ہو ، اور اس کو شاعرانہ قوت مشاہدہ دی گئی ہو۔ ایک شاعرانہ ظرف نگاہی رکھنے والا شخص تو اس پر ایک نظم اور قصیدہ لکھ سکتا ہے اور وہ بےساختہ اس قدیم ، مالوف اور جدید شاعرانہ منظر کو دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے۔ یا یمسکھن الا اللہ (61 : 97) ” اللہ کے سوا کس نے انہیں تھام رکھا ہے “۔ یہ کس طرح ، پرندوں کی فطرت ہی ایسے اصولوں پر وضع کی گئی ، اس کے ارد گرد فضائی حالات اللہ نے ایسے بنائے کہ اس میں وہ اڑ سکیں اور زمین پر کسی بھی وقت نہ گریں۔ ان فی ذلک لایت لقوم یومنون (61 : 97) ” اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں “۔ ایک قلب مومن اس کائنات کی عجائبات پر اسی طرح نظر دوڑاتا ہے جس طرح شاعر کسی چیز کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا شعور اور اس کا ضمیر ان مخلوقات کے حسن اور کمال کو محسوس کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے احساس کی تعبیر نہایت ہی خوبصورتی سے کرتا ہے۔ ایمان کی شکل میں ، اللہ کی بندگی کی شکل میں اور اللہ کی ثنا اور تسبیح کی شکل میں۔ اہل ایمان میں سے اللہ نے جن لوگوں کو قادر الکلامی دی ہے ، وہ اللہ کی ان تخلیقات میں عجیب و غریب پہلو دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ ایسے مومنین کی تخلیقات اس قدر گہری ہوتی ہیں کہ عام شاعر کی اس مقام تک رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
Top