Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 94
وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَ تَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ وَ لَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَ : اور لَا تَتَّخِذُوْٓا : تم نہ بناؤ اَيْمَانَكُمْ : اپنی قسمیں دَخَلًۢا : دخل کا بہانہ بَيْنَكُمْ : اپنے درمیان فَتَزِلَّ : کہ پھسلے قَدَمٌ : کوئی قدم بَعْدَ ثُبُوْتِهَا : اپنے جم جانے کے بعد وَتَذُوْقُوا : اور تم چکھو السُّوْٓءَ : برائی (وبال) بِمَا : اس لیے کہ صَدَدْتُّمْ : روکا تم نے عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
”(اور اے مسلمانو) تم اپنی قسموں کو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بنا لینا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے اور تم اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا ، برا نتیجہ دیکھو اور سزا بھگتو۔
تشریح : قسموں کو دھوکے اور فریب کے لئے استعمال کرنے کے نتیجے میں انسانی ضمیر سے عقیدہ مر جاتا ہے اور دوسروں کے ضمیر میں اس کی صورت بگڑ جاتی ہے۔ جو شخص قسم اٹھاتا ہے اور یہ جانے ہوئے اٹھاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ، ایسے شخص کے دل میں کوئی عقیدہ قرار نہیں پکڑ سکتا۔ نہ ایسا شخص کسی راستے پر ثابت قدمی سے چل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جن کے خلاف قسم اٹھاتا ہے ان کی نظروں میں بھی اپنے دین و ایمان کی شکل بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ دوسرا فریق جان لیتا ہے کہ اس کی یہ قسمیں دھوکے کے لئے تھیں۔ یوں یہ شخص ان لوگوں کو دین اسلام سے متنفر کرکے ان کی گمرالی کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہ دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے ایک بری مثال قائم کرتا ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اہل اسلام اپنے وعدے کے بہت پکے ہیں ، عہدے کے پابند ہیں ، معاملات میں صاف ہیں اور ایمان میں مخلص ہیں تو کفار جماعتوں اور اقوام کی شکل میں اسلام میں داخل ہوگئے کیونکہ وفائے عہد اور ایفائے میثاق کے نتیجے میں ان کو جو خسارہ ہوتا تھا ، اس سے فائدہ بہت زیادہ تھا۔ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ نے مسلمانوں کا کردار تعمیر کرتے ہوئے اس پہلو سے ان کی زندگیوں پر بہت ہی اچھے نقوش چھوڑے اور انہی نقوش کے مطابق مسلمان انفرادی طور اور حکومتی سطح پر لوگوں سے معاملات کرتے رہے۔ ان کا یہ طرز عمل نہایت ہی امتیازی تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت معاویہ اور شاہ روم کے درمیان معاہدہ امن کا ایک وقت مقرر تھا۔ حضرت معاویہ نے اختتام اجل سے پہلے ہی شاہ شام کے خلاف لشکر کشی کردی جبکہ ان کو معلوم ہی نہ تھا۔ اس موقع پر حضرت عمر ابن عتبہ نے فرمایا اللہ اکبر ، یا معاویہ ، وعدے کی وفا کرو ، غداری مت کرو ، میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے ” جس شخص اور کسی قوم کے درمیان ایک میعاد امن مقرر ہو ، تو وہ اپنے اس عہد کو ہر گز حلال نہ کرے جب تک وقت گزر نہ جائے۔ چناچہ حضرت معاویہ لشکر لے کر واپس ہوگئے۔ اسلامی تاریخ ایسی روایات سے بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں نے نقص عہد میں صریح فائدے کے باوجود عہد کا پاس رکھا اور ظاہری مصلحتوں کو چھوڑ دیا۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کے دلوں پر یہی اسلامی رنگ چڑھا دیا تھا۔ قرآن نے وفائے عہد کی ترغیب دی ، عہد شکنی سے ڈرایا۔ حضور ﷺ نے لوگوں کو ڈرایا اور یہ قرار دیا ہے کہ فریقین ہی معاہدے کے فریق نہیں ہوتے بلکہ اللہ بھی فریق ہوتا ہے ۔ قرآن کریم نے یہ قرار دیا کہ عہد شکنی کی صورت میں جو نفع ہوتا ہے وہ نہایت ہی معمولی اور حقیر ہوتا ہے اور اللہ وفائے عہد پر جو اجر اور انعام دے گا وہ بہت ہی بڑا انعام ہوگا۔
Top