Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
“ اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ”۔
آیت نمبر 9 سیدھا راستہ یا سبیل قاصد صراط مستقیم ہے ، گویا وہ راستہ خود منزل مقصود کا قصد کرتا ہے۔ وہ منزل سے ادھر ادھر نہیں ہوتا اور سبیل جائر اس راستے کو کہتے ہیں جو منزل مقصود سے منحرف ہوتا ہے اور منزل مقصود تک نہیں پہنچتا یا منزل مقصود سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ ولو شاء لھدکم اجمعین (16 : 9) “ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ”۔ لیکن اللہ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ انسان کو اس نے ہدایت و ضلالت کی استعداد دے دی اور انسان ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے یا ضلالت کی راہ لیتا ہے یہ اللہ نے اس کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا ہے۔ چناچہ انسانوں میں سے بعض تو سبیل قاصد پر چلتے ہیں اور بعض ٹیٹرھی راہ کو کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے لوگ اللہ کے دائرہ مشیت کے بہرحال اندر ہی رہتے ہیں کیونکہ انسان کے لئے آزادی اور اختیار کا تعین بہرحال اللہ ہی نے کیا تھا۔
Top