بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجت تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا
سورت کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے ، چونکہ مقام ایسا ہے جہاں بندے اور رب کی ملاقات ہور ہی ہے ، اس لئے ایسی فضا اور ایسے حالات میں تسبیح و تحلیل ایک مناسب فعل ہے اور حضرت محمد ﷺ کی صفت عبدیت کو یہاں خصوصیات کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا کہ اس قدر عروج اور بلندی درجات حضور اکرم ﷺ اللہ کے بندے ہی ہیں۔ دوسرے غلط مذاہب کی طرح مقام عبودیت اور مقام الوہیت کو ایک کرنے کے بجائے اس کو ممتاز رکھنا چاہیے۔ ان دونوں کا امتزاج ممکن نہیں۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آپ کی ذات میں الوہیت کو جمع کیا گیا۔ یہ محض اس لئے کیا گیا کہ آپ کی ولادت معجزانہ تھی ، آپ سے معجزات کا صدور ہوا اور پھر آپ کو اس دنیا سے معجزانہ طور پر اٹھایا گیا۔ ان وجوہات کی بنا پر بعض لوگوں نے ذات غیبی میں مقام الوہیت و عبودیت کا امتزاج کردیا۔ لیکن اسلامی عقیدے کو اس معاملے میں سادہ ، صاف اور خالص رکھا گیا اور اسلام نے ذات باری کے ساتھ ہر قسم کی شرک کی نفی کی خواہ قریب ہو یا بعید۔ اسراء سری سے مشتق ہے ، جس کے معنی رات کے وقت چلنے کے ہیں۔ اس سے اسریٰ ے مفہوم ہی میں رات کا وقت داخل ہے۔ لہٰذا اسری کے بعد رات کی صراحت ضروری نہیں ہے لیکن سیاق کلام میں رات کی صراحت بھی کردی گئی ہے۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا (71 : 1) ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو رات کو “۔ یہ اس لئے کہ اس سفر کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ دکھایا جائے کہ اس سفر پر ات کے سائے تھے ، نہایت ہی پرسکون ماحول تھا۔ اور یہ قرآن کریم کا خصوصی اسلوب ہے کہ وہ ہر واقعہ کے ماحول کو بھی نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتا ہے ، جن حالات میں واقعہ ہوتا ہے۔ ویسی ہی فضا انسان کی قوت مدرکہ اور اس کے نفس پر سایہ فگن ہوجاتی ہے اور وہ واقعہ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ سفر مبارکہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اللہ نے کرایا اور اللہ لطیف وخبیر ہے۔ اس سفر کی غرض وغایت یہ بتانا تھی کہ تمام توحیدی اور ادیان سماوی کا سرچشمہ اور تاریخ ایک ہے ، یہ ادیان ابراہیم اور اسماعیل (علیہم السلام) سے چلے ہیں اور ان کا خاتمہ حضرت محمد خاتم النبین پر ہوا ہے۔ ان ادیان کے مقامات مقدسہ بھی یکساں طور پر قابل احترام ہیں۔ لہٰذا خاتم النبین ، تمام انبیاء اور ان کے مقامت مقدسہ کے وارث اور امین ہیں۔ گویا یہ سفر زمان و مکان کے حدود کے اندر مقید نہیں ہے ، یہ کوئی مخصوص واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک آفاتی سفر ہے اور بادی النظر میں اس سے جو مقصد و مفہوم نکلتا ہے اس سے کہیں آگے اس کی غرض وغایت زیادہ وسیع ہے اور اس کے اندر گہری حکمت ہے۔ یہاں مسجد اقصیٰ کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے۔ الذی برکنا حولہ (71 : 1) ” جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکات الہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے اسے بابرکت بنایا ہے یا یہ کہا جاتا کہ اس میں برکات ہیں تو مفہوم میں اس قدر وسعت نہ ہوتی جس طرح ان الفاظ میں ہے کہ ہم نے اس کے ماحول کو بابرکت بنایا ہے۔ یہ سفر بذات خود بھی ایک معجزہ تھا ، لیکن اس کے اندر آپ کو مزید معجزات اور آیات کی سیر بھی کرالی گئی۔ لنریہ من ایتنا (71 : 1) ” تاکہ ہم اسے کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں “۔ سب سے پہلے تو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر ہی ایک معجزہ ہے ، کہ اس قدر قلیل وقت میں یہ سفر اختتام کو پہنچا کہ حضور ﷺ کا بستر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تھا ، چاہے اس سفر کی کیفیت جو بھی ہو ، بہرحال یہ ایک معجزہ تھا ، مقصد یہ تھا کہ حضور ﷺ کو وسیع تر کائنات کی سیر کرائی جائے اور یہ بتایا جائے کہ اس انسانی مخلوق کی ذلت میں بڑے بڑے کمالات پوشیدہ ہیں ، نیز اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ حضرت خاتم النین کو ان حقائق کے ادراک کے لئے تیار کیا جائے جو انبیاء کی ذات پر البقاء ہوتے ہیں ، اور جن کے اخذ کی استعداد صرف ان مخصوص بندوں کو دی جاتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ رسالت کا اعزاز بخشنے کے لئے منتخب کیا ہے اور یہ انبیاء اسی نوع بشر سے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے خلق کثیر پر فضیلت دی ہوتی ہے اور جس کے اندر اللہ نہایت ہی لطیف اسرار رکھے ہوتے ہیں۔ انہ ھو السمیع البصیر (71 : 1) ” وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے “۔ وہ ہر لطیف اور باریک چیز کو نگاہ میں رکھتا ہے۔ ایسی آواز بھی سنتا ہے جو بہت ہی دھیمی ، ہو یعنی وہ تمام لطائف اور تمام اسرار سے واقف ہے۔ سیاق کلام میں آغاز اللہ کی تسبیح سے ہوتا ہے۔ سبحن الذی اسری بعبدہ نیلا (71 : 1) اور تسبیح اللہ کی تعریف ہے۔ اس کے بعد مقصد سفر بتایا جاتا ہے جو اثباتی اور قطعی پہلو رکھتا ہے۔ لنریہ من ایتنا (71 : 1) اور اس کے بعد پھر اللہ کی تعریف کی طرف بات منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ سب مطالب و مفہومات اپنے اندر ایک گہرا توازن رکھتے ہیں۔ تسبیح تو صفت باری تعالیٰ ہے جو انسان کی طرف سے اللہ کے لئے ہے۔ مقصد اللہ کی طرف سے ایک فیصلہ ہے اور سمیع وبصیر اللہ ہی کی صفت وائمہ قائمہ ہے جو خبر کے انداز میں بیان ہوئی ہے۔ غرض ایک ہی آیت میں یہ سب معانی بڑی خوبصورتی کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں اور جو اپنا مفہوم نہایت ہی باریکی سے ادا کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کو رات کا یہ سفر کرانا ایک معجزہ ہے۔ جس طرح دوسرے معجزات اللہ تعالیٰ صادر فرماتا رہا ہے۔ معجزہ یوں ہے کہ انسان سفر کے سلسلے میں جس انداز کا عادی ہے اس سے ذرا ہٹ کر ہے۔ مسجد اقصیٰ اس سفر میں ایک مرحلہ رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ اس علاقے کا قلب ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بسایا اور پھر وہاں سے ان کو نکالا۔ درج ذیل آیات کے ضمن میں بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ کے واقعات آئیں گے۔
Top