Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے
یہ اس لئے کہ وہ معاملات کے انجام سے بالکل بیخبر ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ کسی کام کو اچھا سمجھ کر کرتا ہے اور درحقیقت وہ شر ہوتا ہے اور اس کے کے گزرنے میں وہ بہت جلدی کرتا ہے ، بعض اوقات وہ کسی کام کو شر سمجھ کر کرتا ہے لیکن وہ خیر ہوتا ہے۔ غرض انسان کسی بھی کام کے عواقب و نتائج کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔ جبکہ قرآن کریم جو ہدایت دیتا ہے وہ نہایت ہی سیدھی ، نہایت ہی دھیمی اور پروقار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی رہنمائی والی راہ جدا ہے اور انسان کی خود طے کردہ راہ جدا ہے۔ اور ان دونوں کے اندر بہت بڑا فرق ہے۔ سابقہ آیات میں چند معجزانہ اشارات تھے۔ حضور اکرم ﷺ کے واقعہ معراج اور اس کے اندر پائے جانے والے معجزات ، حضرت نوح (علیہ السلام) کا معجزانہ طور پر طوفان سے بچنا اور ان لوگوں کی طرف اشارہ جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے۔ تاریخ بنی اسرائیل کے مدوجزر اور اور ان میں اللہ کے معجزانہ فیصلے اور اقوام کے عروج وزوال کے اصول کے طرف اشارہ ” اور انسانی زندگی میں مکافات عمل اور قرآن کریم کی کتاب ہدایت اور منہاج عمل ہونے کی طرف اشارہ۔ ان تمام معجزانہ امور کے بعد اب روئے سخن معجزات کائنات کی طرف پھرجاتا ہے ، ان سابقہ معجزات کا صدور تو پیغمبروں کے ذریعہ ہوا۔ لیکن یہ معجزات ایسے ہیں کہ ہر کسی کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ ان کائناتی معجزات کے ساتھ انسانی زندگی کی جدوجہد اور انسانی اعمال بھی وابستہ ہیں۔ انسانی اعمال اور جدوجہد کا نتیجہ ان قوانین قدرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چناچہ جس طرح انسانی عمل اور مکافات عمل کا اصول کائنات میں رواں دواں ہے ۔ اسی طرح نوامیس فطرت کے اصول بھی انسانی زندگی کے ساتھ مربوط ہیں ، جس طرح انسانی ، عمران کچھ قواعد پر مبنی ہے ، اسی طرح یہ کائنات بھی بعض قواعد پر مبنی ہے۔ اور اس کے اندر کوئی تخلف نہیں ہوتا۔ رات و دن کا یہ نظام جس طرح نہایت ہی اٹل قواعد پر مبنی ہے اسی طرح سنت الہیہ بھی اس کائنات میں جاری وساری ہے اور اس کے اصول بھی اٹل ہیں ۔ او وہ بھی اسی ژات باری کے ارادے سے چل رہے ہیں جس کے ارادے سے رات و دن چل رہے ہیں۔
Top