Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے
حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی گمراہی کے نتیجے میں کسی بھی سوسائٹی کے اندر عملی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ نظریاتی بےراہ روی کی وجہ سے صرف نظریہ ہی خراب نہیں ہوتا یا اس کے نتیجے میں محض مذہبی مراسم میں کمزوری نہیں آتی بلکہ سوسائٹی کا اجتماعی نظام بھی خراب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا نظریہ درست ہو تو صرف اس کی عبادت ہی درست نہیں ہوجاتیں بلکہ اس سوسائٹی کا عملی نظام ، اس کے اجتماعی ادارے بھی صحیح و سلامت ہوجاتے ہیں اور درست سمت میں کام کرتے ہیں۔ اور لڑکیوں کے زندہ درگور کرنے کی یہ رسم محض غلط عقیدے پر قائم کی تھی کہ لڑکیوں کی وجہ سے غربت آتی ہے ، جب یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ رزاق صرف اللہ ہے تو اس کے بعد قتل اولاد خود بخود موقوف ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی نظریہ زندگی پر عملاً اثر انداز ہوتا ہے۔ نظریہ محض خلا میں نہیں ہوتا یا محض کسی شخص کے دماغ تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ کہ وہ عمل کی دنیا تک اترتا ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کے انداز تعبیر کی ایک نہایت ہی گہری مثال پر قدرے غور کریں۔ یہ عجیب لطیف مثال ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے رزق کو آباء کے رزق پر مقدم رکھا۔ نحن نرقھم وایاکم (71 : 13) ” ہم تمہاری اولاد کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی “۔ لیکن سورت انعام میں اولاد کے رزق پر آبا کے رزق کو مقدم رکھا گیا ، وہاں کہا گیا۔ نحن نرزقکم وایاھم (6 : 151) ” ہم تمہیں اولاد کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی “۔ لیکن سورت انعام میں اولاد کے رزق پر آبا کے رزق کو مقدم رکھا گیا ، وہاں کہا گیا۔ نحن نرزقکم وایاھم (6 : 151) ” ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہاری اولاد کو بھی “۔ کیونکہ دونوں آیات کے مفہوم میں ایک دوسرا اختلاف ہے۔ پوری آیات یوں ہیں : ولا تقتلوا اولاد کم خشیۃ املاق نحن نرزقھم وایاکم (71 : 13) اور انعام میں یوں تھی : ولا تقتلوا اولادکم من املاق نحن نرزقکم ویاھم (6 : 151) یہاں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اولاد کو اس لئے قتل نہ کرو کہ تم غریب ہوجائو گے۔ خشیۃ املاق (71 : 13) اس لئے اللہ نے فرمایا کہ اولاد کا رزق ہم پر ہے۔ اور انعام یہ تھا من املاق یعنی فقر اور تنگی رزق پہلے سے موجود تھے ، اس لئے والدین کے رزق کو پہلے لایا گیا۔ یہ ایک لطیف فرق ہے اور اسی وجہ سے تقدیم و تاخیر کا یہ عمل ہوا۔ قتل اولاد کی ممانعت کی نسبت ہی سے ممانعت زنا کا حکم آتا ہے۔
Top