Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو ، یقینا آنکھ ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے
ان چند الفاظ میں انسانی دل و دماغ کے لئے ایک بہترین منہاج عمل اور طریق کار وضع کردیا گیا ہے اور یہ ایک سائنسی انداز جسے دوسرے لوگوں نے حال ہی میں معلوم کیا ہے۔ اسلام نے اس میں قلب کی درستی ، خدا ترسی اور سائنس میں حکمت خداوندی پر غور کا جوڑ لگا کر ایک خشک علم کے مقابلے میں اسے مزید مقدس اور بامعنی بنا دیا ہے۔ یہ اسلام اور قرآن کی خصوصیات ہے۔ قرآن کریم یہ حکم دیتا ہے کہ ہر معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پوری تحقیق کرو ، معاملے کو پایہ ثبوت تک پہنچائو ، یہ اسلام کا نہایت ہی باریک طریق کار ہے۔ جب دل و دماغ اس منہاج پر گامزن ہوجائیں۔ تو پھرو ہم و گمان کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی اور معاملات ، فیصلوں کا مدار تحقیق اور ثبوت پر ہوتا ہے ، مفروضوں پر نہیں۔ انسانیت کو یہ علمی اور سائنسی انداز سب سے پہلے قرآن نے دیا ہے۔ وہ علمی امانت جس کے ساتھ دور جدید کے لوگ مسلح ہیں ، اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس علی امانت کا ایک حصہ ہے۔ جس کی تلقین قرآن کرتا ہے یعنی قلب و نظر کی وہ امانت جسے عقل کہتے ہیں اور جس کے استعمال اور کام میں لانے کی قرآن کریم بار بار تلقین کرتا ہے اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان سمع اور بصر اور قلب و نظر کی قوتوں کو کام میں لانے کا ذمہ دار ہے اور یہ ذمہ داری اس ذات کے سامنے ہے جس نے یہ قوتیں انسان کو عطا کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام اعضاء اور جوارح ، اس کے حواس اور اس کی عقل یہ سب اللہ کی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کا مالک اللہ ہے ، وہ انسان سے پوچھے گا کہ اس نے یہ قوتیں کام میں لائی تھیں یا نہیں۔ جب انسان ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے مفہوم پر غور کرتے ہوئے انسان معلوم کرلیتا ہے کہ عقل اور فکر و نظر اور سمع و احساس کسی قدر عظیم قوتیں ہیں۔ خصوصاً جب ایک انسان کوئی کہانی یا روایت بیان کرتا ہے ، یا کوئی فیصلہ کرتا ہے ، کسی کے خلاف ، کسی حادثے کے بارے میں ، یا کسی اور معاملے میں۔ ولا تقف مالیس لک بہ علم (71 : 63) ” کسی ایسے چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو ‘۔ یعنی اس بات میں نہ پڑو ، جس کا تمہیں یقینی علم نہ ہو ، جب تک اس کی صحت کے بارے میں تمہیں وثوق حاصل نہ ہو ، خواہ بات ہو یا کوئی روایت ہو ، کسی منظر کی تشریح ہو یا کسی واقعہ کے اسباب پر بحث ہو ، کوئی شرعی اور قانونی مسئلہ ہو یا کوئی اعتقادی اور نظریاتی مسئلہ ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث “ بدگمانی سے دور رہو ، کیونکہ محض ظن وتخمین کی بات جھوٹی بات ہوتی ہے “۔ سنن ابو دائود میں ہے۔ بسئی معلیہ الرجل زعموا “ کسی شخص کی یہ بہت بری سواری ہے کہ وہ کہے ” لوگ یہ سمجھت ہیں “۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے۔ ان افری الفریی ان یری الرجل عینہ مالم تریا ” سب سے بڑی افتراء یہ ہے کہ ایک شخص اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انہوں نے نہیں دیکھی “۔ یوں آیات و احادیث و رویات کا ایک بڑا ذخیرہ اس بات کی توثیق و تائید کرتا ہے کہ اسلام میں عقل و خرد اور ثبوت احکام کے لئے نہایت ہی مستحکم اور معقول طریق کار اپنایا گیا ہے۔ تمام اسلامی احکام کے ثبوت ، میں پوری طرح چھان بین کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔ چناچہ ایک مسلمان اپنی سوچ ، اپنے تصور ، اپنے شعور ، اپنے فیصلوں میں پختہ ثبوت اور یقین کا قائل ہوتا ہے ، وہ کوئی بات ، کوئی روایت ، کوئی حکم ، اور کوئی فیصلہ بغیر شہادت اور ثبوت کے نہیں مانتا۔ جب تک اس کے تمام اجزاء پایہ ثبوت و یقین تک پہنچ نہ جائیں۔ اور یہ ثبوت معقول حالت کے اندر نہ ہو ، اور جس میں کوئی شک و شبہ نہ رہا ہو۔ بیشک قرآن نے بہت ہی صحیح کہا ہے۔ ان ھذا القرآن یھدی للتی ھیی اقوم (71 : 9) ” بیشک یہ قرآن ایک صحیح راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے “۔ صدق اللہ العظیم۔ یہ احکام ، اوا مرو نواہی جو عقیدہ توحید پر مبنی ہیں ، یہاں ان کا خاتمہ ایک نہایت ہی اہم اخلاقی تعلیم پر کیا جاتا ہے ، وہ یہ کہ انسان اپنی بےبضاعتی کو بھی پیش نظر رکھے اور اپنے آپ کو بڑی چیز نہ سمجھے۔
Top