Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 90
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًاۙ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَطْلِعَ : طلوع ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے اس کو پایا تَطْلُعُ : طلوع کر رہا ہے عَلٰي قَوْمٍ : ایک قوم پر لَّمْ نَجْعَلْ : ہم نے نہیں بنایا لَّهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهَا : اس کے آگے سِتْرًا : کوئی پردہ
یہاں تک کہ وہ طلوع آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لئے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔
مغرب الشمس کے بارے میں جو تفسیر کی گئی وہی مشرق کے بارے میں بھی درست ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ وہاں سے سورج طلوع ہو رہا ہے۔ قرآن حکیم نے اس مقام کا بھی تعین نہیں کیا ، لیکن قرآن نے اس کے کوائف اور وہاں کے لوگوں کے وہ حالات قلم بند کئے ہیں ، جن میں ذوالقرنین نے لوگوں کو وہاں پایا۔ حتی اذا بلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم من دونھا ستراً (81 : 09) ” یہاں تک کہ طلوع آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لئے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ “ یعنی یہ ایک کھلی سر زمین تھی ، سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ یہ صفت صحرائوں اور کھلے میدانوں پر صادق آتی ہے۔ اس میں بھی کسی خاص مقام کا تعین نہیں کیا گیا۔ ہمارے خیال میں مشرق بعید کی کوئی جگہ تھی ، جہاں دیکھنے والا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ سورج ایک ہموار اور کھلی زمین پر چمک رہا ہے۔ یہ مشرقی افریقہ کی کوئی جگہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ آیت لم نجعل لھم من دونھا سترا (81 : 09) ” ہم نے اس کی دھوپ سے بچنے کے لئے ان کے لئے کوئی سامان نہ بنایا تھا۔ “ اس سے مراد ایک ایسی قوم ہو سکتی ہے جس کے جسم پر کوئی لباس نہ ہو اور وہ ننگے جسم والے تھے اور ان کے جسم پر سورج کی دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی لباس نہ تھا۔ اس سے قبل ذوالقرنین اپنی حکومت کا دستور و منشور پیش کرچکا تھا ، اس لئے یہاں اس مشرقی قوم کے لئے اس نے دوبارہ اپنے دستور کا اعلان نہیں کیا کیونکہ اس کا پروگرام معلوم تھا۔ اللہ کو معلوم تھا کہ اس کی زنگدی کے مقاصد اور نصب العین کیا ہے۔ یہاں قرآن مجید کی ایک خاص فنی خصوصیت کا ملاحظہ ضروری ہے۔ اس لئے یہاں قدرے وقفہ کرتے ہوئے طرز ادا کے پہلو سے قرآن کریم کی فنی ہم آہنگی پر بات کریں گے۔ یہاں سفر شرقی میں جو منظر ہے وہ یہ ہے کہ ایک قوم چٹیل میدان میں رہتی ہے اور سورج کی گرمی سے سر چھپانے کے لئے اس کے پاس کوئی سامان نہیں ہے۔ اسی طرح ذوالقرنین کا دل بھی اللہ کے علم کے سامنے کھلا ہے۔ کوئی بات اللہ سے چھپائی نہیں جاسکتی۔ اللہ فرماتے ہیں ” ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اسے ہم جانتے تھے۔ “ یوں مضمون کا ظاہری اور باطنی انداز یکساں ہوجاتا ہے۔ یہ قرآن کا نہیات ہی خاص انداز ہے کہ وہ گفتگو کے ظاہری ماحول اور معنوی تصورات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
Top