Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
بچہ بول اٹھا ” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ، اور بنی بنایا ،
یوں حضرت عیسیٰ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں ، وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں ، جس طرح بعض عیسانی فرقے دعویٰ کرتے ہیں۔ نہ وہ بذات خود الہ ہیں جس طرح بعض دور سے فرقے عقیدہ رکھتے ہیں ۔ نہ یہ بات ہے کہ وہ تینوں کا ایک ہیں اور تین الہ واحد ہیں جیسا کہ ایک دوسرا فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے۔ نہ بیٹا بنایا ہے اور نہ شریک۔ مجھ میں برکت ڈلای ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ پوری زندگی میں نماز ادا کروں اور زکوۃ رپ عمل کروں۔ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کروں اور فیملی کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھوں۔ خود میری زنگدی محدود ہے۔ موت کے لئے ایک دن مقرر ہے۔ مروں گا ، پھر اٹھایا جائوں گا۔ اللہ نے میرے لئے سلامتی ، امن ، اطمینان کا پورا پورا سامان کردیا ہے ، ولادت کے وقت بھی ، موت کے وقت بھی اور بعث بعد موت کے وقت بھی۔ یہ آیت حضرت عیسیٰ کی موت اور بعث بعد موت پر نص صریح ہے۔ اس میں کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس میں بحث کی کوئی گنجائش ہے۔ قرآن مجید یہ منظر پیش کر کے اس پر کسی اور بات کا اضافہ نہیں کرتا۔ یہ تفصیلات نہیں دی جاتیں کہ اس معجزے کے بعد قوم کا ردعمل کیا ہوا۔ اس کے بعد مریم اور ان کے اس ذی شان بچے کا کیا بنا۔ جس نبوت کی طرف انہوں نے اپنے کلام میں اشارہ کیا تھا وہ انہیں کب ملی کیونکہ انہوں نے کہا تھا۔ اتنی الکتب وجعلنن نبیاً (91 : 03) ” مجھے اس نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ “ کیونکہ اس جگہ قرآن کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خارق عادت معجزہ پیش کردیا جائے اور جب بات اس حیران کن اور معجزانہ کلام تک پہنچتی ہے تو پردہ گرتا ہے تاکہ اس کے بعد وہ اصل بات نہایت ہی مثبت ، فیصلہ کن انداز میں کی جائے کیونکہ یہ بہتر موقعہ ہے کہ اس مقام پر نہایت ہی سنجیدہ لہجے میں اصل بات کہہ دی جائے۔
Top