Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرو ‘ بیشک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا
درس نمبر 631 ایک نظر میں پہلے سبق کے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کی حقیقت بیان کی گئی ‘ اور بتایا گیا کہ جو لوگ ان کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ‘ وہ محض وہم و گمان اور قصے ‘ کہانیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ بڑی گمراہی میں مبتلا ہیں اور ان کہانیوں سے بعض گمراہ اہل کتاب استدلال کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کا ایک حصہ دیا جاتا ہے جس میں عقائد شرکیہ کی گمراہی اور بطلان کو واضح کیا گیا ہے۔ عرب اور مشرکین مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ اس گھر کے متولی ہیں جس کی تعمیر حضرض ابراہیم و اسماعیل علیھا السلام نے فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم اپنے اس قصے کی اس کڑی میں نہایت ہی حلیم الطبع کردار والے نظر آتے ہیں اور اللہ کی مشیت پر راضی ہونے والے شخص ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ خدوخال ان کے الفاظ ‘ ان کے انداز کلام سے بھی اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں جن کی حکایت قرآن کریم نے عربی میں بیان کی ہے۔ نیز ان کے اقدامات سے اور والد کی جہالت کے مقابلہ کے سلسلے میں ان کے رویہ سے بھی ان کی شخصیت واضح ہو رہی ہے۔ لیکن اللہ کی طرف سے ان کے اس کردار اور ان کے ان اوصاف کا صلہ بھی ان کو خوب ملا۔ ان کے مشرک باپ اور مشرک فیملی کی جگہ اللہ نے ان کو ایسی صالح اولاد دی جن سے ایک بڑی امت پیدا ہوئی۔ اس امت میں بڑے بڑے انبیاء و صالحین پیدا ہوئے لیکن ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کردیا۔ اور خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے لگے اور اس راہ سے وہ منحرف ہوگئے ‘ جو ان کے لیے ان کے باپ ابراہیم نے تجویز کیا تھا۔ اور انہوں نے حضرت ابراہیم کا دین تک ترک کردیا اور مشرکین مکہ انہی لوگوں کے سر خیل تھے ۔ اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق اور نبی کہا۔ صدیق سے یہ بھی مفہوم کہ وہ بہت ہی سچے تھے اور یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ بہت تصدیق کرنے والے تھے۔ دونوں معنی حضرت ابراہیم کی شخصیت کے ساتھ مناسب ہیں۔
Top