Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 46
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُ١ۚ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِیْ مَلِیًّا
قَالَ : اس نے کہا اَ رَاغِبٌ : کیا روگرداں اَنْتَ : تو عَنْ : سے اٰلِهَتِيْ : میرے معبود (جمع) يٰٓاِبْرٰهِيْمُ : اے ابراہیم لَئِنْ : اگر لَّمْ تَنْتَهِ : تو باز نہ آیا لَاَرْجُمَنَّكَ : تو میں تجھے ضرور سنگسار کروں گا وَاهْجُرْنِيْ : اور مجھے چھوڑ دے مَلِيًّا : ایک مدت کے لیے
باپ نے کہا ‘” ابراہیم ‘ کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے ؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہوجا ؟
جواب میں والد صاحب نے کہا کہ ابراہیم تو میرے معبودوں سے نفرت کرتے ہو ‘ اور اس نفرت کی وجہ سے تم ان کی عبادت سے پھرگئے ہو ‘ یا تمہیں اس قدر جرائت ہوگئی ہے ‘ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تو نے اپنے اس مکروہ موقف پر نظر ثانی نہ کی تو میں تمہیں رجم کردوں گا۔ لئن لم تنتہ لا رجمنک (91 : 64) ” اگر تو باز نہ آیاتو میں تجھے سنگسار کردوں گا “۔ میرے سامنے سے ہٹو اور ہمیشہ کے لئے یہاں سے چلے جائو۔ اسی میں تمہاری خیر ہے ورنہ یہاں زندہ نہ بچو گے۔ واھجرنی ملیا (91 : 64) ” ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہو جائو “۔ یہ شخص ہدایت کی دعوت کا جواب اس سختی سے دیتا ہے اور نہایت ہی باادب خطاب اور درخواست کو بھی سختی سے رد کردیتا ہے۔ یہ ہے ایمان اور کفر کے درمیان فرق۔ ملاحظہ کیجئے کہ جس دل کو اسلامنے مہذب بنا دیا وہ کیسا ہے اور جس دل کو کفر نے برباد کردیا وہ کیسا ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) طیس میں بھی نہ آئے ‘ انہوں نے بھلائی ‘ محبت اور ادب کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور یوں گویا ہوئے :
Top