Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
اور اے رب ! ان لوگوں میں خود ان کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو ، جو انہیں تیری آیات سنائے ۔ “ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے ۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔ “
اس کے بعد وہ مزید التجا کرتے ہیں کہ ازمنہ بعیدہ میں بھی وہ ان کی ہدایت کے لئے مستقل بندوبست فرمائیں۔ وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (129) ” اے اللہ ! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول مبعوث فرما جو تیری آیات تلاوت کرے ، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں کو پاک کردے ۔ بیشک تو غالب و حکیم ہے ۔ “ حضرت ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی اس دعا کی قبولیت کے نتیجے میں اب اس رسول کریم کی بعثت ہوئی اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد ، اور آپ کی بعثت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوئی جواب انہیں آیات سناتے ہیں ۔ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور انہیں ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک کرتے ہیں ۔ اللہ کے ہاں مخلصانہ دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے لیکن وہ اپنے اس وقت میں ظاہر ہوتی ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس کے لئے مقرر کردیا ہوتا ہے ۔ عام لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ جلد بازی کرتے ہیں اور جو لوگ منزل مراد نہیں پاتے وہ مایوس وپریشان ہوتے ہیں۔ سورة بقرہ کی اس دعا کے نزول کے وقت مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک ہمہ گیر کشمکش جاری تھی ، ان حالات میں اس دعا کے اندر بعض اشارات بھی پنہاں ہیں اور اس کی خاص اہمیت ہے ۔ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جن کو اس گھر کی تعمیر وتطہیر اور عبادت گزاروں ، زیارت کنندگان اور وہاں ٹھہرنے والوں کے سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ وہ دونوں موجودہ مجاورین یعنی قریش کے آباء اجداد جن کے ہاتھ میں آج خانہ کعبہ کا انتظام ہے ۔ اور ان کا واضح فرمان ہے ۔” ہمیں اپنا مطیع فرمان بنا “ اور ” ہماری اولاد سے بھی ایک امت مسلمہ اٹھا “ جس طرح انہوں نے یہ بھی کہا ” اے ہمارے رب ان میں خود ان سے ایک رسول مبعوث فرما ، جو انہیں آیات پڑھ کر سنائے ، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں کو پاکیزہ بنادے ۔ “ گویا حضرت ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی اپنی اس دعا سے اس بات کا تقرر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ حضرت ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی جانشین وخلیفہ ہے ۔ اور اس بات کی حق دار ہے کہ اب خانہ کعبہ کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہو۔ گویا خانہ کعبہ امت مسلمہ کا مرکز ہے ۔ اور مشرکین کے مقابلہ میں یہ امت اس خانہ خدا کے انتظام وانصرام کی زیادہ حق دار ہے اور یہ کہ یہود ونصاریٰ کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ امت مسلمہ کا اپنا قبلہ ہو۔ جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں اور اپنے دین کا جوڑ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ملت ابراہیمی کے وارثو جانشین ہیں اور قریش کے جو لوگ اپنا نسب نامہ حضرت اسماعیل سے ملاتے ہیں انہیں کان کھول کر سن لینا چاہئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنی اولاد کی نسبت اس جانشینی اور امامت وسلطنت کا سوال کیا تھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب یہ تھا۔ لا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ” میرا وعدہ ظالموں کی بابت نہیں ہے ۔ “ اور اس کے بعد جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اہل مکہ کے لئے برکت وفراوانی رزق کی استدعا کی تو آپ نے فرمایا مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ” جو اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے ۔ “ اور یہ کہ جب یہ حضرات تعمیر کعبہ کے لئے اٹھے تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے رب ! ہمیں اپنا مطیع فرمان بنا اور یہ کہ ہماری اولاد میں سے ایک امت مسلمہ اٹھاتے رہیو ! اور یہ کہ ہماری اولاد میں سے نبی آخرالزمان کو مبعوث فرمائیے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور حضرت محمد بن عبداللہ کو مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعہ امت مسلمہ کو ازسر نو قائم فرمایا اور اس نظریاتی وراثت کو یوں جاری فرمادیا۔ قصہ ابراہیم (علیہ السلام) کے اختتام پر اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف مڑجاتا ہے جو لوگ امت مسلمہ کے حق امامت و برتری کو چیلنج کررہے تھے ، جو رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور رسالت سے برسرپیکار تھے اور رسول اللہ ﷺ سے اس موضوع پر بحث وجدال میں مبتلا تھے کہ دین اسلام کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہ اصل دین کیا ہے اور ان کے مزعومات کیا ہیں اس لئے قرآن مجید ان لوگوں کے بارے میں یہ تاثر دیتا ہے ۔
Top