Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے ایمان لانے والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔
اہل ایمان کو بلایا جاتا ہے ایمان کے لقب کے ساتھ جو انہیں بہت ہی پیاری ہے ، جو انہیں امتیاز بخشتی ہے ۔ انہوں اوروں سے ممتاز بناتی ہے۔ جو ان کے اور ان کے پکارنے والے ، ان کے اپنے رب کے درمیان واحد رابطہ ہے ۔ اہل ایمان کو پکار کر دعوت دی جاتی ہے کہ پورے پورے اسلام میں آجاؤ ! اس دعوت کا پہلا اور ابتدائی مفہوم یہ ہے کہ اہل ایمان کلیتاً اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ اور ان کا پورا وجود ، اپنے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملے میں ، اللہ کے لئے ہوجائے ۔ ان کے تصور اور ان کے شعور ، ان کی نیت اور ان کے عمل ، ان کی خواہش اور ان کی قناعت کا کوئی حصہ بھی آزاد نہ رہ جائے ۔ وہ پورے کے پورے اسلام میں آجائیں ۔ پورے کے پورے اللہ کے تابع ہوجائیں ۔ اور ہر معاملے میں اللہ کے ہوں اور اللہ کے فیصلے پر راضی ہوں ۔ وہ اپنی لگام اس ہاتھ میں ، مکمل یقین و اطمینان کے ساتھ تھمادیں جو ان کی قیادت کررہا ہے ۔ اور انہیں پورا یقین ہو کہ ان کا قائد بھلائی خیر خواہی اور صحیح راہنمائی کے سوا کچھ بھی نہیں چاہتا ۔ وہ اطمینان کرلیں کہ جس راہ پر وہ گامزن ہیں ، جس منزل کی طرف وہ رواں دواں ہیں وہی حق ہے اور اسی میں دنیا وآخرت کی فلاح ہے۔ اس مرحلے پر ، اہل ایمان کو مکمل تسلیم کی دعوت دینے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ابھی تک مسلمانوں کی صفوں میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے جن کے دلوں میں تردد تھا ، خلجان تھا جو ابھی تک اس بات پر مطمئن نہ تھے کہ انہوں نے ظاہراً اور باطناً ہر طرح سے پوری پوری اطاعت کرنی ہے ۔ اور یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے ۔ تحریکات میں ایک طرف اگر مطمئن ، پختہ کار اور مطیع فرمان لوگ ہوتے ہیں ، تو ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن میں کمزوریاں ہوتی ہیں ۔ یہ پکار اور یہ دعوت ایسی ہے جو ہر وقت اہل ایمان کو دی جاتی رہے گی کہ وہ مخلص ہوجائیں ، یکسو ہوجائیں ۔ ان کے دل کی دھڑکنیں ، ان کے شعور اور میلانات اللہ کے حکم اور اللہ کے ارادے سے ہم آہنگ ہوجائیں ۔ وہ اللہ کے ہوجائیں جو انہیں ان کے نبی اور ان کے اپنے نظام کی طرف لے جاتا ہے ، بغیر کسی تردد ، بغیر کسی خلجان کے اور پوری یکسوئی کے ساتھ۔ اور ایک مومن جب اس دعوت کو قبول کرتا ہے ، شرح صدر کے ساتھ اور پورے طور پر ، تو وہ ایک ایسی دنیا میں قدم رکھتا ہے ، جو امن کی دنیا ہے ، جو سلامتی کی دنیا ہے۔ وہ ایک ایسے جہاں میں داخل ہوجاتا ہے جو اطمینان کا جہاں ہے ۔ جو رضا اور سکون کا جہاں ہے ، وہ ایک ایسے عالم میں جاپہنچتا ہے جس میں نہ حیرانی ہے نہ پریشانی ، جس میں فساد ہے نہ گمراہی جہاں ہر شخص اور ہر ذی روح کے ساتھ بن پڑتی ہے ۔ جہاں وجود اور موجودات کے ساتھ ہم آہنگی ہوتی ہے ۔ جہاں نفس انسانی کے خفیہ ترین اور پوشیدہ ترین گوشوں میں بھی سکون ہے اور انسان کی ظاہری اور اجتماعی زندگی میں سکون ہے ۔ ایسا عالم ، جس کی زمین میں امن و سکون اور جس کے ایمان پر بھی اطمینان وقرار۔ اس سلامتی کا قلب مومن پر پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ اسے اپنے اللہ اور اپنے رب کے بارے میں ایک صحیح تصور ملتا ہے ۔ یہ تصور خالص بھی ہے اور ستھرا بھی ۔ یہ کہ وہ واحد معبود ہے صرف اسی کی طرف مومن متوجہ ہوتا ہے اور وہی اس کا قبلہ ہوتا ہے۔ پھر اس پر مومن مستقلاً جم جاتا ہے اس کا دل مطمئن ہوجاتا ہے۔ نہ اب مختلف راستے رہتے ہیں نہ مختلف قبلے رہتے ہیں ۔ اب وہ حالت نہیں رہی وہ نہایت ہی اطمینان ، نہایت ہی وثوق اور نہایت صحت اور نہایت صفائی کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا آلہ ہے جو عزیز اور طاقتور ہے ، جو غالب اور قادر ہے ۔ جب مومن اس کی طرف پھرتا ہے تو وہ سچائی کی ایک زبردست قوت کی طرف پھرتا ہے ، جو اس کائنات کی واحد قوت ہے ۔ اب یہ اطمینان واستراحت کی زندگی بسر کرے گا اور اسے کسی جھوٹی قوت کا کوئی ڈر نہ ہوگا۔ وہ کسی چیز سے خوف نہ کھائے گا وہ ایسے معبود کی بندگی کرے گا جو عزیز اور طاقتور ہے ۔ جو غالب اور صاحب قدرت ہے ۔ اس لئے اب اسے کسی چیز کی محرومی کا کوئی خوف نہ ہوگا۔ نہ وہ ایسی طاقتوں سے خوف کھائے گا نہ ایسی طاقتوں سے توقع کرے گا جن کے پاس نہ دینے کی طاقت ہے اور نہ محروم کرنے کی قوت ہے۔ وہ ایک عادل اور حکیم الٰہ ہے ۔ اس کی قوت اور اس کی قدرت ہی مظالم کے خلاف ضمانت ہے ۔ خواہشات نفسانیہ کے خلاف ضمانت ہے ، کھوٹ کے خلاف ضمانت ہے۔ وہ جاہلیت کے بتوں جیسا معبود نہین ہے ۔ جن کے تصور کے ساتھ سفلی جذبات اور شہوات کا تصور لازم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے تو وہ باطل معبودوں کو چھوڑ کر ایک مضبوط ذات کا سہارا لیتا ہے۔ جہاں سے انصاف ملتا ہے ، امن ملتا ہے اور خصوصی رعایت واکرام حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا رب ہے جو نہایت مہربان ہے ۔ نہایت مشفق ہے ، منعم ہے ۔ وہاب ہے ، گناہ معاف کرنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ وہ مصیبت زدہ کی پکار کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے ، لہٰذا ایک مسلمان اس کے سایہ عطوفت میں مانوس ومامون ہوتا ہے۔ سلامتی میں اور بہرہ مندی میں ہوتا ہے۔ اگر ضعیف ہوجائے تو اس پر رحم ہوتا ہے ۔ اگر تائب ہوجائے تو معاف کردیا جاتا ہے۔ اسلام میں آنے کے بعد ایک مومن کو اسلام سب سے پہلے اپنے اس رب کی صفات سے روشناس کراتا ہے ۔ مومن ان صفات کا مطالعہ کرتا جاتا ہے۔ اس صفت میں اسے ایسا مفہوم ملتا ہے جس سے اس کا دل مانوس ہوتا جاتا ہے۔ اس کی روح مطمئن ہوتی چلی جاتی ہے اور اسے اپنے اس معبود کی طرف سے حمایت ، بچاؤ، مہربانی ، رحمت ، عزت ، شرافت و سکون اور امن کی گارنٹی ملتی ہے۔ سلامتی کے جس نظام میں یہ مومن داخل ہوتا ہے ، اس سے اسے بندے اور خدا کے مابین تعلق کے بارے میں صحیح تصور ملتا ہے۔ نیز یہ اللہ اور بندے کے تعلق ، اس کائنات کے ساتھ انسان کے تعلق کے بارے میں صحیح فکر دیتا ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے سچائی کے ساتھ اس کائنات کی تخلیق کی ۔ اس کائنات میں پھر اس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ پورا پورا پیدا کیا ۔ پھر اس نے اس کائنات میں انسان کو ایک حکمت کے تحت پیدا کیا ۔ اس لئے اسے یوں ہی آزاد نہ چھوڑدیا جائے گا ۔ اللہ نے تمام کائناتی ماحول کو ایسا بنایا ہے کہ یہ سب کا سب اور اس کی ہر چیز انسانوں کے لئے ممد حیات ہے ۔ پھر زمین کے اندر جتنی چیزیں ہیں ان پر انسان کا اقتدار قائم کیا ۔ اللہ کے نزدیک بھی انسان بڑی ذی شرف مخلوق ہے ۔ اس زمین پر وہ اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے ۔ اس منصب خلافت کے چلانے میں خود اللہ اس کا مددگار ہے۔ اور پھر اس انسان کے اردگرد پھیلی ہوئی یہ کائنات بھی اس کی ہمدم ہے ، اس کے ساتھ مانوس ہے ۔ کائنات کی روح انسان کی روح سے ہم آہنگ ہے ۔ یہ کائنات بھی اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور انسان بھی اس کی تمجید کرتا ہے ۔ کائنات کیا ہے بلکہ ارض وسماوات میں ایک میلہ ہے جو قادر مطلق نے اس انسان کی فرحت طبع کے لئے قائم کیا ہے اور اسے دعوت دی ہے کہ وہ اس میلے میں شریک ہو۔ اس کے خلا کو بھر دے اور اس کے ساتھ مانوس ہوجائے ۔ اسے کہا گیا ہے کہ وہ اس کائنات عظیم کی ہر چیز کے ساتھ محبت کرے ، اس کے ہر انداز کے ساتھ پیار کرے ، اس کائنات میں تو بیشمار ہمدم ہیں اور وہ بھی خصوصی دعوت پر اس میلے میں وارد ہیں ، اس کے ہر انداز کے ساتھ پیار کرے ، اس کائنات میں تو بیشمار ہمدم ہیں اور وہ بھی خصوصی دعوت پر اس میلے میں وارد ہیں ، غرض کائنات کی سب چیزیں بےجان یا زندہ سب کی سب اس جشن نوبہاراں کے ارکان ہیں اور پیار کے مستحق ہیں ۔ آشتی کا یہ نظام مسلمان کو ایک نظریہ حیات عطا کرتا ہے ۔ اس نظریہ کے ساتھ وہ اگر ایک حقیر پودے کو دیکھتا ہے ، جسے پانی کی ضرورت ہے اور پھر اسے سیراب کردیتا ہے ، اس کی نشوونما میں معاون ہوتا ہے ، اس کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کرتا ہے ، تو اس نظریہ حیات کے مطابق محض اس فعل پر بھی وہ ماجور ہوگا۔ کیا حسین نظریہ ہے ! کیا ہی قیمتی نظریہ ہے ! جو ایک ماننے والے کی روح کو امن سے بھر دیتا ہے۔ وہ اس پوری کائنات کا ہمدم بن جاتا ہے اور ہر موجود کو گلے لگاتا ہے۔ وہ اس طرح بن جاتا ہے کہ ایک قمقمے کی طرح اپنی ہر طرف امن وسلامتی اور رفق و محبت کی ضوپاشی کرتا رہتا ہے۔ پھر اس نظام میں عقیدہ آخرت ہے ۔ مومن کی روح اور مومن کی دنیا میں یہ عقیدہ بہت اہم رول ادا کرتا ہے ۔ اس پر سلامتی کا فیضان ہوجاتا ہے ۔ اس کی زندگی سے ہر قسم کی بےچینی ، پریشانی ، مایوسی اور جھنجھلاہٹ دور ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ حساب و کتاب اس دنیا ہی میں ختم نہیں ہوجاتا ، ضروری نہیں ہے کہ پوری پوری چیز اس دنیا میں چکادی جائے ۔ اصل حساب و کتاب تو عادل مطلق کی عدالت میں ہوگا۔ اس لئے اگر وہ بھلائی کرتا ہے ، اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے اور اس دنیا میں کامیاب نہیں ہوتا اور اسے اس کا کوئی صلہ نہیں ملتا تو اسے کوئی ندامت نہیں ہوتی ۔ اسے اس پر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی کہ اس دنیا میں ، دنیا والوں کے معیاروں کے مطابق ، اسے کوئی صلہ نہیں ملا ، نہیں ملا تو نہ ملے ۔ عنقریب اسے اللہ کی میزان کے مطابق مل جائے گا اور پورا پورا ۔ جب اس دنیا میں حقوق کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے ۔ اس کے منشاء کے خلاف تقسیم ہوتی ہے تو وہ ” عدل “ کے معاملے میں مایوس نہیں ہوتا ، عدالت تو لازماً لگنے والی ہے۔ جس کا افسر رب العباد ہے ، جو اپنے عباد پر ظلم و زیادتی کا ارادہ ہی نہیں کرتا چہ جائیکہ ظلم کرے ۔ اس دنیا میں ایک مجنونانہ کشمکش برپا ہے ۔ اس کشمکش میں بالعموم بلند اقدار پامال ہورہی ہیں ، آبروئیں لٹ رہی ہیں ۔ بےشرمی اور بےحیائی سے حقوق پامال ہوتے ہیں ، لیکن مومن سلامتی وآشتی کے اس نظام حیات میں داخل ہونے والا مومن اس سے دور رہتا ہے۔ یہ عقیدہ آخرت ہی ہے ، جو اسے گندگی سے دور رکھتا ہے ، وہ تو آخرت پر نظریں جمائے ہوئے ہے ۔ وہاں دادوہش ہے ، وہاں تلافی مافات ہے ۔ وہاں عطا وغنا ہے ۔ یہ دنیا باہمی مسابقت کا ایک میدان ہے ۔ باہمی حسد ومنافقت کی ایک جنگاہ ہے ۔ زندگی کا یہ تصور قلب مومن پر سکون وسلامتی اور صبر و قناعت کی بارش کردیتا ہے ۔ جب وہ اس دوڑ میں حصہ لینے والوں کی حرکات کو دیکھتا ہے تو اسے یہ بھلی معلوم نہیں ہوتیں ۔ انسان میں قدرتاً یہ شعور ہوتا ہے کہ زندگی مختصر ہے ۔ فرصت کے لمحات تھوڑے ہیں ۔ زندگی کی اس دوڑ میں پھر یہ شعور شدید سے شدید تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ لیکن اسلامی نظریہ حیات کا عقیدہ آخرت پیاس کی اس شدت کو کم کردیتا ہے۔ پھر امن وآشتی کے اس نظام میں ، انسان کو وجود میں لانے کی غرض وغایت اور اس کا مقصد تخلیق اللہ کی بندگی اور اللہ کی غلامی کو قرار دیا جاتا ہے ۔ وہ پیدا ہی اس لئے ہوا ہے کہ اللہ کی غلامی کرے ، حقیقت یہ ہے کہ اس طرح ، یہ انسان کی ایک بلند اور روشن افق پر ایک بلند ستارہ بن جاتا ہے ۔ اس کا خمیر اور اس کا شعور بلند ہوجاتے ہیں ۔ اس کے اعمال اور اس کی سرگرمیاں بلند ہوجاتی ہیں ۔ اس کے وسائل اور اس کے ذرائع پاک ہوجاتے ہیں ۔ وہ اپنے تمام اعمال اور تمام سرگرمیوں میں اللہ کا غلام بن جاتا ہے ۔ اس کا کمانا اور اس کا خرچ کرنا بھی عبادت بن جاتے ہیں۔ وہ دنیا میں منصب خلافت حاصل کرتا ہے اور یہاں اسلامی نظام زندگی قائم کرتا ہے تو بھی عبادت کرتا ہے۔ بندگی ، عبادت اور غلامی کے اس تصور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلم نہ غدار ہوتا ہے نہ بدکار ، وہ نہ فریب کار ہوتا ہے نہ دھوکہ باز ، نہ ظالم ہوتا اور نہ جبار ، وہ حصول مقصد کے لئے ناپاک ذرائع کام میں نہیں لاتا ، نہ وہ خسیسانہ وسائل سے کام لیتا ہے ۔ وہ منزل تک پہنچنے کے لئے بےتاب بھی نہیں ہوتا۔ وہ عجلت اور جلد بازی نہیں کرتا اور وہ اپنے آپ کو دنیاوی مشکلات میں نہیں پھنساتا ۔ وہ خالص نیت کے ساتھ ، مسلسل عمل کے ساتھ ، اپنی طاقت کے حدود میں رہتے ہوئے ، اپنے نصب العین کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی خوف اور کوئی لالچ اس کے نفس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا ۔ زندگی کے اس سفر کے مختلف مراحل میں کسی مرحلے میں بھی وہ بےچین نہیں ہوجاتا ۔ اس لئے کہ ہر قدم پر وہ اللہ کی عبادت میں ہوتا ہے ۔۔ وہ ہر خطرے کو انگیز کرتا ہے ۔ اس لئے کہ وہی اس کا مقصد تخلیق ہے ۔ غرض وہ ہر سرگرمی اور ہر میدان میں بلندیوں کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اپنے اللہ رب العالمین اور اپنے خالق کی سمت میں ۔ مومن کا یہ شعور کہ وہ اللہ کی تقدیر کا ہمدم ہے ۔ شاہراہ تقدیر پر گامزن ہے ۔ وہ اللہ کی بندگی میں ہے ، وہ ارادہ الٰہی کا مظہر ہے ، اس کی روح پر طمانیت کی بارش کردیتا ہے ۔ اس کا پیمانہ دل سکون وقرار سے لبریز ہوجاتا ہے۔ کسی تحیر کے بغیر ، کسی بےچینی کے بغیر ، کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر اور مصائب ومشکلات کو خاطر میں لائے بغیر اپنے نشان منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی اعانت اور نصرت سے مایوس نہیں ہوتا ۔ اسے یہ خوف بھی نہیں رہتاق کہ اس کا نصب العین نظروں سے اوجھل ہوجائے گا یا اس کا اجر ضائع ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ ، اللہ کے دشمنوں کے ساتھ برسر جنگ بھی ہوتا ہے لیکن اس کی روح میں ٹھہراؤ اور سکون ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ نہ جاہ ومنصب کے لڑرہا ہوتا ہے ، نہ دولت اور غنیمت کے لڑتا ہے اور نہ اغراض دنیا میں سے کسی غرض کے لئے برسر پیکار ہے۔ قلب مومن یہ شعور لئے ہوئے ہے کہ وہ اس پوری کائنات میں سنت اللہ کا ہمقدم ہے ۔ اس کا قانون قانون فطرت ہے ۔ اس کا رخ اسی سمت ہے جو فطرت کائنات کی سمت ہے ۔ پس اس کے اور اقوائے فطرت کے درمیان کوئی تصادم نہیں ، حقائق فطرت کے ساتھ اس کی کوئی لڑائی نہیں ۔ اس لئے مومن کی فطری قوتیں اور اس کائنات کی قوتیں ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ ان کے درمیان ٹکراؤ کے نتیجے میں یہ قوتیں بکھر نہیں جاتیں ۔ منتشر نہیں ہوجاتیں بلکہ اس کائنات کی تمام قوتیں ایک مسلمان کی قوتوں کے ساتھ آملتی ہیں ۔ یہ قوتیں بھی اسی روشنی کے ساتھ منزل تلاش کرتی ہیں جس کے ساتھ مرد مومن تلاش کرتا ہے ۔ غرض کائنات کی تمام قوتیں اللہ کی سمت میں رواں دواں ہیں اور مرد مومن بھی اسی طرف رواں دواں ہے ۔ اسلام نے ، مسلمانوں کے لئے جو فرائض مقرر کئے ہیں وہ فطری ہیں ۔ فطرت کی تصحیح کے لئے ہیں ۔ سب کے سب انسانی طاقت کے حدود میں ہیں ۔ ان میں انسان کے مزاج اور اس کے عناصر تکوینی کا پوراپورا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ اسلام انسان کی قوتوں میں سے کسی قوت کو بھی مہمل نہیں رہنے دیتا ، ہر قوت کام میں لگی ہوئی ہے ۔ نشوونما اور تعمیر و ترقی میں اپنا پارٹ ادا کررہی ہوتی ہے ۔ وہ انسان کی روحانی اور جسمانی ضروریات میں سے کسی کو نظرانداز نہیں کرتا ، بلکہ وہ بڑی آسانی ، بڑی نرمی ، بڑی فراخ دلی کے ساتھ انسان کے تمام دواعی فطرت کو پورا کرتا ہے ۔ اس لئے ان عبادات پر عمل پیرا ہوتے وقت اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ، بےچینی کا مقابلہ نہیں کرنا ہوتا ۔ وہ ان عبادات و فرائض پر اپنی طاقت وقدرت کے مطابق عمل پیرا ہوتا ہے ۔ اور بڑی طمانیت قلب کے ساتھ ، بڑے روحانی سکون کے ساتھ مسلسل اپنی منزل طے کرتا چلا جاتا ہے ۔ کدھر ؟ اپنے خالق معبود کی طرف۔ اسلام ، یعنی ربانی نظام زندگی جس معاشرے کو جنم دیتا ہے ، وہ معاشرہ بھی امن وسلامتی کامینار ہے ۔ یہ مینار ایک اونچے مقام سے مسلسل امن وآشتی کی ضوپاشی کررہا ہے ۔ یہ معاشرہ اس نظام کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ جس کی کونپلیں اس قیمتی اور حسین نظریہ حیات کے شجر سے پھوٹتی ہیں جو قلب مومن میں جاگزیں ہے ، یہ معاشرہ حفظ نفس ، حفظ آبرو اور حفظ مال کی خدائی تحفظات (Guaranties) کے سائے میں نشوونما پاتا ہے۔ ایسا معاشرہ ، جس کے سپوت بھائی بھائی ہوں ، ایک دوسرے کے ساتھ پیار کرنے والے ہوں ، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں ، ایک دوسرے کا سہارا ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ اجتماعی طور پر ضامن (SocialSureties) ہوں اور جس اک ہر جز دوسرے اجزاء کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ تاریخ ایک بار تو اسلام ایسے معاشرے کو عملاً وجود میں لایا ۔ بہت اعلیٰ واصفیٰ شکل میں ، اپنی ترقی یافتہ صورت میں ، اسلامی تاریخ کے بعد کے ادوار میں بھی ایسے معاشرے وجود آتے رہے جو اپنے معیار کے اعتبار سے بیشک بعض کم رہے ، بعض اچھے رہے ، لیکن اپنی کمزوریوں کے باوجود وہ ان تمام معاشروں سے اونچے رہے جو کبھی بھی وجود میں آئے ، چاہے جاہلیت قدیمہ کے دور میں ہوں ، چاہے جاہلیت جدیدہ کے دور میں ہوں بلکہ ان تمام معاشروں سے بھی جو اگرچہ جاہل نہ ہوں ۔ لیکن ان میں جاہلیت کی آمیزش آگئی ہو۔ جو جاہلیت کے ساتھ آلودہ ہوچکے ہیں اور جن کی فکر میں اور جن کے نظم اجتماعی میں صرف دنیاوی تصورات ہی کارفرما ہوں۔ یہ معاشرہ یعنی اسلامی معاشرہ ایسا ہوتا ہے جس کے افراد و اجزاء میں صرف ایک رابطہ ہوتا ہے یعنی نظریہ حیات کا رابطہ ۔ یہ بہت ہی وسیع نظریاتی معاشرہ ہوتا ہے۔ تمام قومیات ، تمام ملکی حدود ، تمام زبانیں اور تمام رنگ اس کے مقابلے میں پگھل کر فنا ہوجاتے ہیں ۔ غرض تمام غلط افکار قومیت ، لسانیت ، وطنیت اور رنگ ونسل کے تمام فکری فتنے جن کا انسان کی انسانیت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوتا وہ سب کے سب پگھل کر اس وسیع الاساس اسلامی معاشرے میں جذب ہوجاتے ہیں ۔ ذرا سنئے ! اس معاشرے کے بارے اللہ کی ہدایات :” بیشک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (سورۃ الحجرات : 10) “۔ اس معاشرے کی بہترین تصویر رسول ﷺ نے ایک مشہور حدیث میں کھنچی ہے :” باہمی محبت ، باہمی رحم ، باہمی مہربانی کے لحاظ سے ، مومنین کی مثال ایک جسم واحد کی سی ہے ۔ جسم میں سے ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو تمام جسم بےآرام ہوجاتا ہے۔ پورا جسم جاگتا ہے اور پورے جسم میں بخار کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ “ (روایت امام احمد) ذرا دیکھئے اس معاشرے کے عمومی آداب کیسے حسین ہیں اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم ازکم (نساء : 86) ۔ اسی طرح ” اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان : 8) “ بدی کو نیکی سے رفع کر جو بہترین ہو ۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی ، وہ جگری دوست بن گیا۔ “ (حم سجدہ : 34) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے اور جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں (الحجرات : 6) “۔” اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے گا ؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو ۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے رحیم ہے ۔ “ (الحجرات : 12) یہ معاشرہ ایسا ہے جو اپنے کو یہ ضمانتیں (Securities) دیتا ہے :” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کے آئے تو تحقیق کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پریشان ہو۔ “ ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو ، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ۔ تجسّس نہ کرو۔ “ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک گھروالوں کی رضانہ لے لو ، اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج دو (النور : 72) ۔ “ ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے یعنی اس کا خون ، اس کی عزت اور اس کا مال ۔ “ یہ پاک معاشرہ ایسا ہے کہ اس میں فحاشی نہیں پھیل سکتی ۔ اس میں بےحیائی کو پسند نہیں کیا جاتا ۔ اس میں فتنے کا رواج نہیں ۔ اس میں عریانی نہیں پھیلتی ۔ آنکھیں پوشیدہ مقامات جسم کی طرف ملتفت ہی نہیں ہوتیں ۔ اس میں لوگوں کی عصمتیں آزاد شہوت رانی سے محفوظ ہوتی ہیں ۔ اس میں جنسی خواہشات اور خون اور گوشت کاملاپ اس طرح آزاد نہیں ہوتا جس طرح نظام جاہلیت میں ہوتا ہے ، خواہ جاہلیت قدیمہ ہو یا جدیدہ ۔ اس سلسلے میں اسلامی معاشرہ پر ربانی ہدایات کی حکمرانی ہوتی ہے اور وہ ہر وقت اپنے رب کی بات سنتا ہے ۔ آپ بھی سنیں :” جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحاشی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ (نور : 19) “ ” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو۔ اگر تم اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ (نور : 4) “ ” اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں ، پھر چار گواہ نہ لے کر آئیں ، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو ، اور وہ خود ہی فاسق ہیں ۔ (النور : 31) “۔” اے نبی مومنین مردوں سے کہو اپنی نظریں بچاکررکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے ، اور اے نبی مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظربچاکر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤسنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ وہ اپنے بناؤ سنگھارنہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے ، بھائی بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے لونڈی غلام ، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں پر مارتی ہوئی نہ چلاکریں کہ اپنی جو زنیت انہوں نے چھپارکھی ہو ، اس کا لوگوں کو علم ہوجائے ۔ اے مومنو ! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو ، توقع ہے کہ فلاح پاؤگے ۔ (الاحزاب : 33) “ پھر قرآن مجید خود رسول اللہ ﷺ کی عورتوں سے بھی خطاب کرتا ہے جو کردہ ارض پر پاکیزہ ترین عورتیں تھیں ، پاکیزہ ترین گھر ، پاکیزہ ترین خاندان میں اور پھر پاکیزہ ترین دور میں۔ ” نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑجائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو ، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔ “ ایسے معاشرہ میں بیوی کو خاوند پر اعتماد ہوتا ہے ۔ خاوند کو بیوی پر اعتماد ہوتا ہے ۔ والدین و سرپرست اپنی حرمتوں اور عصمتوں کے بارے میں مطمئن ہوتے ہیں ۔ لوگوں کو اپنے دلوں اور اپنے اعصاب پر اعتماد ہوتا ہے ۔ نظروں سے فتنے اوجھل ہوتے ہیں ، اس لئے وہ دلوں کو ممنوعات کی طرف کھینچ ہی نہیں سکتے ۔ اس کے مقابلے میں آج کل مغربی ممالک حال یہ ہے کہدزیدہ نگاہوں کا تبادلہ ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ اس معاشرے کے افراد کو ہر وقت خواہشات کو دبانا پڑتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں وہ کئی قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان کے اعصاب میں ہر وقت تناؤہوتا ہے جبکہ اسلام کا پاکیزہ اور عفت مآب معاشرہ ہر وقت تھما ہوا ہے ۔ اس معاشرے پر ہر وقت امن ، پاکیزگی اور سلامتی کے کشادہ پردوں کا سایہ ہوتا ہے۔ اور سب سے آخر میں یہ کہ معاشرہ ہر اس شخص کو جو کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے ، رزق حلال اور روزگار کی ضمانت دیتا ہے ۔ یہ معاشرہ ہر معذور شخص کو شریفانہ زندگی اور مناسب ضروریات زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ جو شخص عفت اور پاکدامنی کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے ، اس معاشرے میں اس کے لئے جائز نکاح کی سہولتیں ہوتی ہیں ۔ اسے صالح رفیقہ حیات ملتی ہے۔ یہ ایسا معاشرہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے کسی محلے میں کوئی بھوک سے مرجائے تو وہ تمام محلہ کو موت کا قانوناً ذمہ دار ٹھہراتا ہے ۔ اور ان پر تعزیری شرائط عائد کرتا ہے ، بعض فقہاء اور قانون دانوں نے لکھا ہے کہ اہل محلہ کو بطور تاوان اس شخص کی دیت ادا کرنی ہوگی۔ اور پھر ایک نئے پہلو سے دیکھئے ، ی معاشرہ اپنے افراد کو شہری آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے ۔ اس میں لوگوں کی شرافت ، ان کی عزتیں اور ان کے جان ومال ازروئے قانون محفوظ ہوتے ہیں ۔ اس بات کی ضمانت خود شارع مطلق رب ذوالجلال دیتا ہے ، جو مطاع ہے اور اس معاشرے میں اس کی ہر بات قانون ہے ۔ لہٰذا اس معاشرے میں محض شک کی بنیاد پر کوئی نہ پکڑاجائے گا۔ کسی کی دیوار کو پھاند کر کوئی کسی کا حق تنہائی چھین نہ لے گا۔ کوئی شخص کسی کے خلاف تجسس نہ کرسکے گا ۔ اس معاشرے میں اگر کسی کا خون بہا تو وہ لغو نہ جائے گا بلکہ قصاص نافذ ہوگا۔ کسی کا مال چوری یا ڈاکے میں نہ جائے گا کیونکہ اس میں حدود نافذ ہیں۔ پھر اس معاشرے کا سیاسی نظام شوریٰ تعاون اور آزادی رائے اور ضمانت حق تنقید (نصح) پر قائم ہوتا ہے ۔ اس معاشرے میں انصاف اور قانون کی نظروں میں سب لوگ برابر ہوتے ہیں ۔ اس کا ہر فرد یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے بارے میں ہر قانونی فیصلہ اللہ کی جانب سے ہے ۔ اللہ کے قانون کا فیصلہ ہے ، اس میں نہ حاکم وقت کا دخل ہے ، نہ اس کے کسی حاشیہ نشین کا دخل ہے اور نہ ہی اہل کار ان سرکار کے رشتہ داروں کا دخل۔ الغرض پورے انسانی معاشروں میں یہ واحد معاشرہ ہے ، جس میں انسان ، انسان کے تابع نہیں ہے ، بلکہ تمام انسان حاکم ہوں یا محکوم ہر صورت میں اللہ اور اس کی شریعت کے تابع ہیں ۔ حاکم ہوں کہ محکوم دونوں اللہ کی شریعت کو نافذ کرتے ہیں ، چناچہ سب کے سب برابری اور مساوات کے ساتھ ، پورے ایمان ، پورے یقین اور پورے وثوق کے ساتھ ، اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے سامنے قدم بقدم کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سب معانی المسلم کے مفہوم میں داخل ہوتے ہیں ، جو آیت میں استعمال ہوا ہے اور جس میں مومنین کو پورا پورا داخل ہونے کی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں ۔ اس طرح کہ ان کے لئے ان کے نفس کا کچھ حصہ بھی نہ رہے ۔ سب کا سب اللہ کا ہوجائے ، اطاعت وانقیاد میں اور تسلیم ورضا میں ۔ امن وسلامتی کے اس مفہوم کا صحیح ادراک تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم ان معاشروں مطالعہ کریں ، جو اسلام سے متعارف نہیں ہیں یا اسلام سے متعارف تو ہیں لیکن پھر بھی اس سے بیگانہ ہوگئے ہیں اور دوبارہ نظام جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں اور مختلف ادوار میں انہوں نے اپنے لئے مختلف نام اور مختلف عنوان تجویز کئے ۔ ان معاشروں کی حالت یہ ہے کہ وہ بےیقینی میں مبتلا ہیں ۔ ایمان سے خالی ہیں ۔ ان کے افراد نفیساتی اور اعصابی پریشانیوں اور بےچینیوں کا شکار ہیں ۔ یہ معاشرے تہذیبی ترقی کے اعلیٰ معیار تک پہنچے ہوئے ہیں ۔ ان میں ساری سہولتیں اپنے انتہاء کو پہنچی ہوئی ہیں اور وہ تمام سہولتیں وافر ہیں جنہیں کوئی بھی گم کردہ راہ جاہلی تہذیب ترقی کے لئے ضروری سمجھتی ہو۔ اس مثال کا مطالعہ کیجئے ۔ سویڈن دنیا کے تمام ممالک میں زیادہ ترقی یافتہ ہے جس کے ہر فرد پر قومی دولت سے پانچ سو پونڈ سالانہ خرچ کیا جاتا ہے ۔ جہاں ہر آدمی کے لئے علاج ومعالجے کی ضمانت حاصل ہے۔ جہاں علاج کے نقد رقم دی جاتی ہے ، اور ہسپتالوں میں علاج مفت ہے ۔ جہاں ہر مرحلہ تعلیم میں تعلیم بالکل مفت ہے ، جہاں ہر طالب علم کو کپڑوں کا الاؤنس دیا جاتا ہے ۔ اور لائق طالب علموں کو قرض بھی دیا جاتا ہے ، جہاں حکومت تین سو پونڈ شادی الاؤنس دیتی ہے تاکہ گھریلوسامان خریدا جاسکے ۔ غرض ان کے علاوہ متعدد سہولیات اور آسانیاں ہیں جو وہاں عوام کو میسر ہیں لیکن اس مادی ترقی اور تہذیبی سہولتوں کے نتائج کیا ہیں ؟ جبکہ ان فرزندان تہذیب کے دل ایمان سے خالی ہیں۔ اس قوم کا حال یہ ہے کہ آزادانہ جنسی اختلاط کی وجہ سے جسمانی لحاظ سے پوری قوم مسلسل روبزوال ہے ۔ آزادانہ جنسی اختلاط ، فتنہ انگیزعریانی اور آزادنہ جنسی بےراہ روی کی وجہ سے ہر چھٹی شادی طلاق پر منتج ہوتی ہے ۔ جدید نسل بری طرح منشیات کی عادی ہوچکی ہے ۔ ان منشیات کے استعمال سے یہ لوگ اس روحانی خلا کو بھرتے ہیں اور بےیقینی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم اطمینان کا نعم البدل تلاش کرتے ہیں ۔ نفسیاتی بیماریاں ، اعصابی بیماریاں اور جنسی بیماریاں وبا کی طرح ان کے دماغ ، ان کے اعصاب اور ان کی روح پر حملہ آور ہیں اور ہزاروں آدمی ان میں بری طرح مبتلا ہیں ۔ اس بےچینی کی انتہا اس وقت ہوتی ہے ، جب ایک شخص تنگ آکر خودکشی کا فیصلہ کرتا ہے۔ امریکہ کا حال بھی ایسا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔ اور روس کے حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں ۔ یہ تلخی اور بدبختی مقدر ہے ہر اس شخص کے لئے جس کا دل فرحت ایمان سے خالی ہے ، بشاست ایمانی سے خالی ۔ ایسا شخص ہرگز امن وسلامتی سے لطف نہیں اٹھاسکتا ، جس میں پوری طرح داخل ہونے کی دعوت ، مسلمانوں کو دی جارہی ہے تاکہ وہ اس کے سائے میں امن و آرام اور قرار و سکون سے خوش وخرم رہیں ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (208) ” اے ایمان والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں ، امن میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو ، کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ “ اس دعوت کے ساتھ ساتھ کہ تم پورے کے پورے ، اس امن وسلامی (اسلام) میں داخل ہوجاؤ، مسلمانوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ تم ہرگز شیطان کی پیروی نہ کرنا ۔ کیونکہ راستے دو ہی ہیں ۔ ایک اسلام کا ، سلامتی کا راستہ اور شیطان کے نقش قدم والا راستہ ۔ ایک طرف ہدایت کی راہ ہے ، دوسری طرف گمراہی کی راہ ہے ۔ ایک طرف اسلام ہے ، اور دوسری طرف جاہلیت ہے ۔ یا اللہ کا راستہ یا شیطان کا راستہ یا اللہ کی ہدایت اور یا شیطان کی غوایت ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے موقف کے فیصلہ کن انداز کو اچھی طرح سمجھے ، چناچہ اس سلسلے میں وہ کسی تردد ، کسی حیرانی کیو قریب نہ آنے دے اور مختلف راستوں کو دیکھ کر ایک منٹ کے لئے بھی متحیر نہ ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مومن کو یہ آزادی نہیں دی گئی کہ وہ زندگی کے متعدد نظاموں میں سے کسی ایک نظام حیات کو اپنے لئے چن لے ۔ یا ایک دونظاموں کے اجزا کو ملاکر ایک تیسرا نظام گھڑ لے۔ اس کے صرف دوراستے ہیں ، حق یا باطل ، ہدایت یا ضلالت ، اسلام یا جاہلیت ، اللہ کا نظام زندگی ہے یا شیطان کی گمراہی ہے ۔ یہاں اس آیت میں ایک تو اللہ مسلمانوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ پورے کے پورے سلامتی کے اس نظام میں آجائیں ۔ دوسرے انہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ وہ شیطان کی پیروی کریں ۔ یہاں ان کے ضمیر اور شعور کو بیدار کیا جارہا ہے ۔ انہیں شیطان کی جدی عدوات یاد دلاکر چوکنا کیا جارہا ہے۔ بتایا جاتا ہے شیطان کے تمہارے ساتھ جو دشمنی ہے وہ کوئی پوشیدہ اور چھپی ہوئی دشمنی نہیں ہے ۔ یہ بالکل بین اور واضح ہے ۔ اسے تو صرف وہ شخص بھول سکتا ہے جو غافل ہو ۔ اور غفلت اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ۔
Top