Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 210
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیَهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
ھَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّآ : سوائے (یہی) اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس اللّٰهُ : اللہ فِيْ ظُلَلٍ : سائبانوں میں مِّنَ : سے الْغَمَامِ : بادل وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَقُضِيَ : اور طے ہوجائے الْاَمْرُ : قصہ وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹیں گے الْاُمُوْرُ : تمام کام
کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چترلگائے ۔ فرشتوں کے پرے ساتھ لئے ، خود سامنے آموجود ہو اور فیصلہ ہی کرڈالاجائے ۔ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔ “
ھل ، کے لفظ کے ساتھ عربی میں ایسا سوال ہوتا ہے جس میں ناپسندیدگی کا اظہار بھی ہو۔ اس کے جواب میں وہ وجوہات بیان کی گئیں ہیں جن کی وجہ سے بعض مخالفین ، اسلام کو قبول کرنے میں پش وپیش کررہے ہیں اور پورے کے پورے اسلام میں داخل نہیں ہوتے ۔ وہ کیا وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام کی اس دعوت کو قبول نہیں کرتے ؟ وہ کس چیز کا انتطار کررہے ہیں ۔ یہ اسی طرح بغیر کسی وجہ کے انتظار کرتے رہیں گے ، اور اللہ تعالیٰ بادلوں کا کا چتر لگائے آجائے گا۔ فرشتے آجائیں گے ؟ بالفاظ دیگر کیا یہ لوگ اس خوفناک دن کا انتظارکر رہے ہیں ۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے ہوئے آئیں گے اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے ہوں گے کوئی بات نہ کرے گا ۔ مگر وہ شخص جسے بات کی اجازت ہوگی اور وہ بات بھی درست کررہا ہوگا۔ اچانک ........ ہم اس تہدید آمیز سوال کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ گویا وہ دن پہنچ ہی گیا اور فیصلہ ہو ہی گیا ۔ معاملہ ختم ہی ہوگیا ۔ لوگوں کے سامنے اچانک وہ منظر آجاتا ہے ، جس سے انہیں ڈرایا جارہا تھا۔ جس کی طرف اشارہ ہورہا تھا۔ قُضِيَ الأمْرُ (” اور فیصلہ ہو ہی گیا) “ وقت کا دفتر لپیٹ کر رکھ دیا گیا ۔ فرصت کے اوقات ختم ہوگئے ۔ نجات مشکل ہوگئی ۔ اب تو گویا لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس اللہ کے سامنے جس کے آگے سارے معاملات کو پیش ہونا ہے : وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ ” تمام امور نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے ۔ “ یہ قرآن مجید کا انوکھا انداز ہے ۔ تمام دوسری تقاریر اور تحریروں سے یہ انداز اسے امتیازی حیثیت دیتا ہے ۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید ، چند لمحوں کے اندر اندر کسی بھی منظر کو زندہ ومتحرک صورت میں پیش کرتا ہے ۔ انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ اس منظر کے سامنے کھڑا ہے اور وہ دیکھتا ہے ، سنتا ہے ، اور اپنی آنکھوں سے گویا اس منظر کا معائنہ کررہا ہے۔ کب تک یہ لوگ پیچھے رہیں گے اور اس سلامتی میں داخل نہ ہوں گے ۔ خوفناک دن ان کے انتظار میں ہے ۔ بلکہ وہ اچانک ان پر آنے ہی والا ہے ۔ اور سلامتی ان کے قریب ہے ۔ دنیا کی سلامتی اور آخرت کی سلامتی ، جس دن آسمان پر بادل پھٹے پھٹے ہوں گے اور فرشتے اتر رہے ہوں گے ۔ جس دن روح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے ، کوئی نہ بولے گا سوائے اس کے جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے ، وہ دن جب فیصلہ اللہ کرے گا ۔ وہ دیکھو گویا اس نے معاملات چکا دئیے اور سب معاملات کو آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونا ہی ہے ۔ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ اب اس اندازکلام میں اچانک ایک اور تبدیلی آتی ہے ۔ روئے سخن رسول اللہ ﷺ کی طرف جاتا ہے ۔ آپ ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ ذرا بنی اسرائیل سے تو پوچھئے ، بنی اسرائیل ان لوگوں کے سرخیل تھے جو دعوت اسلامی کو قبول کرنے میں متردد تھے اور پس وپیش کرتے تھے ۔ اسی صورت میں ان کے بارے میں کہا گیا ہے ” اللہ نے بیشمار واضح نشانیاں انہیں دکھائیں لیکن پھر بھی انہوں نے دعوت کو قبول نہ کیا۔ لیکن انہوں نے ایمان کی نعمت اور سلامتی کے مقابلے میں کفر کو اختیار کیا ۔ حالانکہ یہ انعامات بذریعہ رسول خود ان کے ہاں بھیجی گئیں تھیں۔ “
Top