Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 213
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً١۫ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
كَانَ
: تھے
النَّاسُ
: لوگ
اُمَّةً
: امت
وَّاحِدَةً
: ایک
فَبَعَثَ
: پھر بھیجے
اللّٰهُ
: اللہ
النَّبِيّٖنَ
: نبی
مُبَشِّرِيْنَ
: خوشخبری دینے والے
وَ
: اور
مُنْذِرِيْنَ
: ڈرانے والے
وَاَنْزَلَ
: اور نازل کی
مَعَهُمُ
: ان کے ساتھ
الْكِتٰبَ
: کتاب
بِالْحَقِّ
: برحق
لِيَحْكُمَ
: تاکہ فیصلہ کرے
بَيْنَ
: درمیان
النَّاسِ
: لوگ
فِيْمَا
: جس میں
اخْتَلَفُوْا
: انہوں نے اختلاف کیا
فِيْهِ
: اس میں
وَمَا
: اور نہیں
اخْتَلَفَ
: اختلاف کیا
فِيْهِ
: اس میں
اِلَّا
: مگر
الَّذِيْنَ
: جنہیں
اُوْتُوْهُ
: دی گئی
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
مَا
: جو۔ جب
جَآءَتْهُمُ
: آئے ان کے پاس
الْبَيِّنٰتُ
: واضح حکم
بَغْيًۢا
: ضد
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان ( آپس کی)
فَهَدَى
: پس ہدایت دی
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لِمَا
: لیے۔ جو
اخْتَلَفُوْا
: جو انہوں نے اختلاف کیا
فِيْهِ
: اس میں
مِنَ
: سے (پر)
الْحَقِّ
: سچ
بِاِذْنِهٖ
: اپنے اذن سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَهْدِيْ
: ہدایت دیتا ہے
مَنْ
: جسے
يَّشَآءُ
: وہ چاہتا ہے
اِلٰى
: طرف راستہ
صِرَاطٍ
: راستہ
مُّسْتَقِيْمٍ
: سیدھا
ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے ، (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوگئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے ۔ اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ اختلافات ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا۔ انہوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد ، محض اس لئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے ، پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے ، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا ، اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ “
یہ ہے وہ کہانی ۔ پہلے سب لوگ ایک امت ہی کے افراد تھے ۔ ایک تصور زندگی اور ایک ہی طرز عمل تھا۔ یہ اشارہ ہے اس چھوٹے انسانی خاندان کی طرف ، جو حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کی ان اولاد پر مشتمل تھا ۔ اور ابھی ابن آدم کے درمیان افکار ونظریات کا اختلاف پیدا نہ ہوا تھا ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے خاندان سے محض اس لئے کیا کہ انسانی زندگی میں خاندانی نظام خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابتدا میں انسانیت پر ایک ایسا دور گزرا ہے ، جس میں سب انسان ایک ہی سطح کے تھے ، ان کا ایک ہی رخ تھا ، ایک ہی نظریہ تھا ۔ وہ صرف ایک ہی خاندان کی شکل میں تھے ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ انسان ترقی کرگئے ۔ پھر ادھر ادھر بکھرکر بسنے لگے ان کے بودوباش کے طریقوں میں اختلاف ہوگیا ۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو خوبیاں ودیعت کی تھیں وہ ظاہر ہونے لگیں ۔ یہ خوبیاں اللہ نے تخلیق کے وقت ان کے اندر رکھ دی تھیں ۔ کسی میں کم تھیں کسی میں زیادہ ۔ اس کی حکمت اللہ ہی کے علم میں ہے اور زندگی کی بوقلمونی کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ کسی میں کچھ استعداد اور کسی کا کچھ رجحان ۔ قدرت کی اسکیم کے مطابق لوگوں کے درمیان نقطہ نظرکا اختلاف پیدا ہوگیا ، لہٰذا انسانیت نے اگلے درجے میں قدم رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کے لئے نبی بھیجے جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ” اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ “ یہاں وہ عظیم حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے یہ کہ لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے ۔ کیونکہ اختلاف ان کی تخلیق کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے ۔ اس اختلاف ہی کے نتیجے میں وہ اسکیم روبعمل آتی ہے جس کی خاطر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ یعنی زمین پر نیابت الٰہی اور منصب خلافت کے چلانے میں انسان کو مختلف قسم کے فرائض سرانجام دینے تھے ، ان کے لئے مختلف قسم کے لوگ اور گوناگوں قابلتیں رکھنے والوں کی ضرورت تھی ، تاکہ یہ سب افراد مل کر نظام خلافت کو پوری ہم آہنگی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور اس کرہ ارض کی تعمیر و ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ اسکیم کو روبعمل لائیں اور ہر شخص اس میں اس کے لئے طے شدہ رول ادا کرے ، لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف فرائض کی ادائیگی کے لئے لوگوں کی صلاحتیں بھی مختلف ہوں اور جس طرح انسان کی ضروریات ہیں اسی طرح انسانوں کی استعداد بھی مختلف ہو : وَلَا یَزَالُونَ مُختَلِفِینَ اِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَٰلِکَ خَلَقَھُم ” اور یہ لوگ یونہی مختلف رہیں گے ۔ ماسوائے ان کے جن پر اللہ رحم فرمائے اور اسی اختلاف کے لئے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ “ قابلیتوں اور فرائض کے اس قدرتی اختلاف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان افکار کا اختلاف جنم لیتا ہے ، ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں ۔ ان کا طریقہ کار اور پھر آخر کار ان کا نظام زندگی بدل جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ یہ فطری اختلافات مطلوب حد تک ہونے ضروری ہیں ۔ البتہ ان اختلافات کو ایک وسیع دائرے کے اندر رہنا چاہئے اور یہ اختلافات تعمیری ہونے چاہییں اور سیدھے ہونے چاہئیں ۔ یہ وسیع دائرہ کیا ہے جس کے اندر یہ محدود ہوں ؟ وہ ایمانی تصور حیات کا دائرہ ہے اور یہ اس قدر وسیع ہے کہ مختلف استعداد رکھنے والے لوگ ، مختلف طاقتوں کے مالک لوگ ، اور مختلف قابلیتوں کے لوگ اس کے اندر پوری ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکتے ہیں ۔ ایمانی تصور حیات ان اختلافات یعنی فطری اختلافات کو نہ دباتا ہے اور نہ ہی بالکل ان کا قتل عام کرتا ہے بلکہ ان کو ایک تنظیم میں لاتا ہے اور ہم آہنگ کرتا ہے اور ان سب کے رخ کو اصلاح و ترقی کی شاہراہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اندریں حالات میں ایک ایسے معیار کا وجود ضروری ہوگیا کہ باہم ٹکراؤ کی اس صورت میں لوگ اس کی طرف رجوع کریں ۔ جو ایک حاکم عادل ہو ، جس کے سامنے فریقین پیش ہوں اور جس کا قول فیصل ہو ، جس کے بعد بحث و تکرار ہی نہ رہے ، وہ ایسا ہو کہ سب لوگ اس کے ذریعہ ذوق یقین اپنے اندر پیش کریں فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا ” تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلاف رونما ہوگئے تھے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ “ ہمیں چاہئے کہ لفظ بالحق پر غور کریں ۔ یہ دراصل اس امرپر قول فیصل ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب اللہ میں ہے ۔ اور اس حق کو اس لئے اتارا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے مختلف تصورات ، ان کے طریقہ ہائے کار اور ان کی اقدار کے لئے بمنزلہ دیانت دار منصف ہے اور تمام اختلافات میں فیصلے کا آخری مقام ہے ۔ اس کے سوا سچائی کہیں نہیں ملے گی ، اس کے ساتھ کوئی متوازی منصف نہیں ہے ، اس کی بات کے بعد پھر کوئی بات نہیں ہے ، یہ حق جو ایک اور لاشریک ہے ، اس کے بغیر تمام اختلافات اور نظریات میں اسے حکم بنائے بغیر ، اور بغیر کسی مزید مقدمہ بازی اور بغیر کسی اعتراض کے اس کے حکم کو حکم آخر تسلیم کئے بغیر اس زندگی کی گاڑی سیدھی پٹری پر روانہ نہیں ہوسکتی ۔ ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ لوگوں کے درمیان موجود شدید اختلافات ختم نہیں ہوسکتے ۔ زمین پرامن قائم نہیں ہوسکتا اور کسی صورت میں بھی ، ان تدابیر کے بغیر ، انسان امن وسلامتی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ لوگ اپنے تصورات اور قوانین حیات کہاں سے لیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوانین حیات اور نظام حیات کے سرچشمے کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کتاب اللہ کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جائے کہ تمام اختلافات کا آخری فیصلہ کتاب اللہ ہی سے ہوگا۔ نیز یہ کہ یہ دوئی قبول نہیں کرتا ۔ اللہ پاک نے اس کتاب کو نازل فرمایا اور حق کے ساتھ نازل فرمایا۔ وہ منبع ایک ہی ہے ۔ اس میں تعدد ممکن نہیں اور یہ وہی منبع ہے جہاں سے کتاب اللہ کا نزول ہوا اور اس لئے ہوا کہ وہ اختلافی امور میں قوت فیصلہ ہو ، معیار حق ہو۔ وہ کتاب اپنی ماہیت کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ سب رسول اسی ایک کتاب کو لے کر آتے رہے ہیں ، لہٰذا تمام آسمانی کتابیں ایک ہی کتاب ہیں اور تمام ملتیں بھی دراصل ایک ہی ملت ہیں اور ان کتب ورسل کے تصورات حیات بھی دراصل ایک ہی ہیں ۔ ایک اللہ ، ایک معبود ، تمام انسانوں کے لئے ایک ہی قانون ساز ، البتہ مختلف ادوار اور مختلف ملل ونحل اور مختلف طرز ہائے زندگی اور مختلف قسم کے ادوار کے لئے تفصیلی اور جزوی احکام میں قدرے فرق ہوا۔ اور تمام حذف واضافہ کے بعد آخری مستقل اور مکمل صورت قرآنی تعلیمات اور ان تعلمیات کے ذریعہ زندگی کو بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کی راہ پر آزادانہ طور پر ڈال دیا گیا ، تاکہ انسانی زندگی اپنے وسیع دائرے میں ، اللہ کی راہنمائی اور ہدایت کی روشنی میں ، اللہ کی شریعت اور زندہ نظام زندگی کے مطابق اپنے وسیع حدود میں ترقی کرتی چلی جائے ۔ کتاب اللہ کے بارے میں قرآن کریم کا یہ فیصلہ ہی دراصل تمام نظریات اور تمام عقائد کے بارے میں صحیح اسلامی نقطہ نظر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصل میں ہر نبی اسی ایک دین کو لے کر آیاجو چند بنیادی عقائد یعنی عقیدہ توحیدوغیرہ پر مشتمل رہا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہر امت نے اپنے رسول کے اٹھ جانے کے بعد رفتہ رفتہ اپنے اصل دین سے انحراف اختیار کرلیا اور غلط روایات اور کہانیوں کا ایک ایسا انبار جمع ہوا کہ اس کے اندر دین اصل الاصول دب کر رہ گئے ۔ لوگ اصل دین سے دور جاپڑے ۔ یوں ضرورت پیش آتی ہے کہ ایک جدید رسالت ایک جدید نبی کے ذریعے بھیجی جائے ۔ جدید نبی ضرور آتا رہا لیکن دراصل دین اسلام کی تجدید ہی ہوتی رہی ۔ خرافات کا جو انبار دین میں داخل ہوچکا تھا یہ رسول اس کی نفی کرتا رہا۔ اور اس دور کے حالات کے مطابق لوگوں کو ایک نظام ایک قانون دیا جاتا رہا ۔ ایک نظام معاشرت کی بنیاد رکھتا رہا ، تاآنکہ قرآن نازل ہوا اور اب دینی نظریات و عقائد کے بارے میں قرآن کریم ہی لائق اتباع ہے اور حق ہے۔ بعض غیر مسلم علماء جب تاریخ مذاہب و عقائد پر بحث کرتے ہیں تو ان کا منہاج بحث یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر نبی کی تعلیمات کو نبی ماقبل سے مختلف ثابت کرتے ہیں ، یوں گویا وہ نظریاتی ارتقاء ثابت کرتے ہیں۔ بعض مسلم محققین بھی اس منہج بحث سے متاثر ہوجاتے ہیں اور غیر شعوری طور پر وہ بھی ادیان کے اصل نظریات و عقائد میں تغیر وبتدل ڈھونڈتے ہیں ۔ یہ انداز بحث مستشرقین اور مذاہب کے بارے میں خود مغرب کے اہل تحقیق اختیار کرتے ہیں۔ ایمان کے اصل تصور میں تسلسل اور ثبات کا یہ نظریہ ہی اس کتاب کا مقصد نزول ہے ، جسے سچائی کے ساتھ نازل کیا گیا ہے اور اس لئے نازل کیا گیا کہ وہ لوگوں کے درمیان ، ان کے اختلافی مسائل کے بارے میں فیصلہ کرے ۔ ہر دور میں ، ہر رسول ، نبی کے بارے میں اور ابتدائی زمانوں سے لے کر آج تک تمام مسائل کے بارے میں کرے ۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسی ترازو موجود ہو جس کے مطابق سب لوگ اپنے نظریات و عقائد کی قیمت معلوم کریں ۔ ایک قول فیصل ہو جس کے بعد بحث ختم ہوجائے ، نیز اس بات کی بھی اشد ضرورت تھی کہ اس ترازو اور اس قول فیصل کا سرچشمہ انسانی نہ ہو ۔ یہ ترازو اور قول فیصل اس ذات کا ہو جو انسانی خواہشات سے متاثر نہ ہو ، وہ انسانی نقائص سے بھی پاک ہو اور اس سرچشمے میں انسان کی طرح جہالت بھی نہ ہو ۔ پھر اس قسم کی ترازو قائم کرنے کے لئے لامحدود علم کی ضرورت ہے ۔ ہر واقعہ کا علم ضروری ہے ، خواہ ہوچکا ہے ، ہورہا ہے یا ہونے والا ہے ۔ یہ علم ہو بھی مطلق یعنی وہ علم نہ زمانے کی قید سے مقید ہو کر ایک ہی چیز زمانے کے اعتبار سے جدا ہوجاتی ہے۔ ماضی ، حال اور مستقبل قرار پاتی ہے ۔ ایک چیز یقینی ، ظنی اور مجہول کہلاتی ہے ۔ ایک ہی چیز کبھی حاضر ہوتی ہے کبھی غائب ہوتی ہے ۔ کبھی قابل مشاہدہ ہوتی ہے اور کبھی چھپی ہوئی ۔ پھر مکان کی قید سے ایک ہی چیز قریب ہوتی ہے ، پھر وہی بعید ہوتی ہے ۔ کبھی دائرہ نظر میں ہوتی ہے کبھی پس پردہ ہوتی ہے ، یا کبھی محسوس ہوتی ہے اور کبھی غیر محسوس ہوتی ہے ، غرض ایسے اللہ و معبود کے علم کی ضرورت ہے جو یہ جانے کہ کیا پیدا کیا اور کس نے پیدا کیا ۔ اسے معلوم ہو کہ مفید کیا ہے اور کیا سب کے لئے مفید ہے ۔ اس قسم کی میزان قائم کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ میزان قائم کرنے والا ضروریات سے بےنیاز ہو ، نقص سے پاک ہو ، فنا سے مبرا ہو ، کوئی چیز اس سے بچ نہ سکتی ہو ، اور موت اسے لاحق نہ ہوتی ہو ، وہ طمع سے پاک ہو ، اسے کسی چیز کی رغبت نہ ہو اور نہ کسی کا ڈر ہو ۔ وہ اس پوری کائنات پر غالب ہو اور اس کی ہر چیز اور ہر شخص پر حکمرانی ہو ۔ غرض میزان اس اللہ اور معبود کی ہو جو خواہشات سے پاک ، ضروریات سے پاک اور اس میں کوئی قصور اور کمی نہ ہو۔ رہی خود انسان کی عقل و دانش ، تو اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھے ، بدلتے ہوئے ماحول پر اس کی نظر ہو ، نئی نئی ضروریات اس کے سامنے ہوں اور پھر وہ ان حالات میں ایک متعین وقت اور ایک مخصوص صورتحال میں ، ہم آۃ ن گی پیدا کرے ، لیکن اس صورت میں جب انسان کے پاس کوئی معیار حق موجود ہو ، جس کے ذریعہ انسان اپنی غلطی اور اپنی راستی کا اندازہ کرسکے ۔ اپنی راست روی اور کج روی معلوم کرسکے ، برسر حق اور برسر باطل ہونے کا اندازہ کرسکے اور یہ سب فیصلے اسی معیار کے مطابق ہی ہوں ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس کے مطابق زندگی صحیح ڈگر پر چل سکتی ہے ۔ اور لوگ اس بات پر مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ان کے امور سیاست و قیادت رب معبود کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ کتاب سچائی کے ساتھ اس لئے نہیں اتاری گئی کہ یہ لوگوں کے درمیان قدرتی صلاحیتیوں کے امتیازات ختم کردے ۔ متنوع وسائل حیات کو ختم کردے ، مختلف طور طریقوں اور مختلف قابلیتوں کا فرق اور امتیاز مٹاڈالے بلکہ اس کتاب کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اگر لوگوں کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے تو حق کے مطابق فیصلہ کردے۔ اس حقیقت کو اگر صحیح طرح ذہنن نشین کرلیا جائے تو اس کے منطقی نتیجہ کے طور پر اسلام کا تاریخی نقطہ نظر اچھی طرح سمجھاجاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام اس کتاب کو ، جسے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ، لوگوں کے اختلافی امور میں ایک لازمی حاکمیت کا درجہ دیتا ہے۔ وہ اس کتاب کو انسانی زندگی کا اصل الاصول قرار دیتا ہے۔ اب قافلہ حیات کو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ اس اصل سے متفق ہے ، اس کے مطابق جارہا ہے ، اس اصول پر قائم ہے ، تو وہ راہ حق پر ہے ۔ اگر قافلہ نظام حیات سے نکل جائے اور کچھ دوسرے اصولوں پر چل پڑے ، تو معلوم ہوجائے گا کہ اب یہ قافلہ راہ باطل پر گامزن ہوگیا ہے ۔ اگر تاریخ انسان کے کسی دور میں تمام کے تمام انسان اس نظام باطل پر راضی بھی ہوجائیں تب بھی وہ اس باطل کو حق میں نہیں بدل سکتے ۔ باطل ، باطل ہی رہے گا ۔ اس لئے کہ لوگ حق و باطل کھرے اور کھوٹے کو معلوم کرنے کا معیار ہی نہیں ہیں ۔ وہ حکم نہیں ہیں ۔ لوگ اگر خود کسی بات کا فیصلہ کرلیں تو وہ حق نہیں بن جائے گی اور نہ یہ کہ اگر پوری انسانی آبادی کوئی فیصلہ کردے تو وہ دین بن جائے گا ۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ اگر لوگ کسی بات پر عمل پیرا ہیں ۔ اگر لوگ کسی بات کے قائل ہوگئے ہیں ، اگر سب لوگ کسی غلط اصول پر اپنی زندگیاں استوار بھی کرلیں تب بھی وہ قول ، وہ فعل اور وہ اصول حق میں نہیں بدل جاتا ۔ اگر وہ اللہ کی کتاب کے خلاف ہو ، لوگوں کا اجتماع اس باطل کو اصول دین میں داخل نہیں کردیتا ، نہ لوگوں کے اس عمل سے وہ اصول دین کی تعبیر وتشریح بن جائے گا ۔ ایسی باتوں پر اگر صدیوں عمل ہوتا رہا ہے ۔ تب بھی اس کے معنی یہ نہیں کہ اب وہ جائز ہوگئی ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے اور اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ اصول دین میں لوگوں نے کئی نئی چیزیں داخل کردی ہیں اور صرف اس صورت میں ہم ان چیزوں کو دین سے علیحدہ کرسکتے ہیں کہ کتاب اللہ کو حکم مانیں ۔ خود اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ مختلف مراحل میں لوگوں نے اصول دین سے انحراف کیا اور یہ انحراف رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے ۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا چونکہ ایک عرصہ سے لوگوں کی زندگی کا اجتماعی نظام اس انحراف پر استوار ہوگیا ہے اس لئے اب یہ انحراف ہی اسلامی نظام کی واقعی اور عملی شکل ہے ۔ ہرگز نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا۔ اگر تاریخ میں اسلام سے کوئی انحراف ہوا ہے اور تعامل بن گیا تو اسلام اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ انحراف اب بھی ایک غلطی تصور ہوگی ۔ اسے حجت نہ سمجھاجائے گا اور نہ وہ کوئی نظیر قرار پائے گا ۔ اس لئے جو لوگ نئے سرے سے اسلامی نظام زندگی قائم کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ان تمام انحرافات کو اکھاڑ پھینکیں ، ان کو کالعدم قرار دیں ۔ اور سب لوگ اس کتاب کی طرف لوٹ آئیں جو نازل ہی اس لئے کی گئی ہے کہ حق کے ساتھ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کرے اور ان کے درمیان حکم ہو۔ جب یہ کتاب آئی تو لوگ ہر طرف سے خواہشات میں گھرے ہوئے تھے ۔ لوگوں پر ان کی خواہشات غالب تھیں ۔ خوف اور لالچ مرغوبات اور کجروی لوگوں کو اللہ کی اس کتاب کی حاکمیت سے دور کئے ہوئے تھی ۔ لوگوں نے حق کی طرف لوٹنا چھوڑ دیا تھا ۔ محض خواہشات نفسیانیہ کی بناپروَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ” اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا ، انہوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے ۔ “ بغی سے مراد حسد ہے۔ لالچ میں منافست ہے ۔ حرص میں مقابلہ اور خواہشات نفسانیہ کی حسد ہے ۔ غرض یہ حسد اور منافست ہی ہے جس نے لوگوں کو اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کے بارے میں اختلاف کو ہوا دینے پر آمادہ کیا ۔ لوگ تفرقہ بازی ، عناد اور بحث و تکرار میں مبتلا رہے ۔ اس اصول کے مطابق مذہبی اختلافات کا تاریخی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر اصول دین کے بارے میں کبھی دوآدمیوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے تو دو میں سے ایک کے دل میں حسد ضرور تھا ، یا دونوں ہی حسد کا شکار تھے لیکن اگر ان فریقین میں ایمانی قوت موجود ہو تو پھر اتحاد واتفاق کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ” پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھایا ، جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ “ اہل ایمان کو اس لئے ہدایت نصیب ہوئی کہ ان کے دل صاف تھے ، ان کی روح یکسو تھی ، ان کے دلوں میں حق تک پہنچنے کی امنگ تھی ۔ اگر حالات ایسے ہوں تو پھر حق تک پہنچنا اور اس پر جم جانا بہت ہی آسان ہوجاتا ہے وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ” اللہ جسے چاہتا ہے ، راہ راست دکھا دیتا ہے۔ “ وہ راہ کون سی ہے جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے ؟ وہ نظام جو حق پر قائم ہوتا ہے اور حق پر چلتا ہے اور حق پر جمارہتا ہے۔ لوگوں کی خواہشات کے مطابق کبھی ادہر ادہر نہیں بدلتا۔ انسانوں کی مرغوبات اور ان کے رجحانات کے ہاتھ میں ایک کھلونابن کر نہیں رہ جاتا۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کے لئے چن لیتا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون لوگ ہیں جن میں قبولیت حق کی استعداد ہے اور پھر اس پر جم سکتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو سلامتی کی راہ پالیتے ہیں بلکہ سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ یہی لوگ غالب ہوں گے ۔ اگرچہ دنیا پرستوں کی نظروں میں ان کی کچھ قدروقیمت نہیں ہوتی اور یہ لوگ محروم تصور ہوتے ہیں ۔ اگرچہ یہ دنیا پرست ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، جس طرح کافر مومنین کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اب تک جو ہدایات دی گئیں ان کا مقصد یہ تھا ، جماعت مسلمہ کے دل میں ایک مکمل واضح اور جامع تصور حیات قائم ہوجائے ۔ یہ ہدایات یہاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ اب جماعت مسلمہ کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ ذرا ان اہل ایمان کے حالات کا مطالعہ کرے ، جو اپنے مخالف دشمنان اسلام ، مشرکین اور اہل کتاب کے اختلاف رائے رکھتے تھے ، پھر ان نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ان پر بیشمار مصیبتیں آئیں ۔ ان اختلافات کی بناپر بڑی بڑی جنگیں لڑی گئیں ، لوگوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اور وہ چور چور ہوگئے۔ جماعت مسلمہ کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ یہ سنت اللہ ہے جو زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے ۔ یوں اہل ایمان کو عام لوگوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے اور انہیں جنت میں داخل کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اس میں داخل ہوں اور اس کے مستحق ہوں۔ سنت اللہ یہ ہے کہ نظریاتی لوگ اپنے نظریات کی مدافعت کریں ۔ وہ اپنے عقائد ونظریات کے لئے مشکلات ، تکالیف اور دکھ و درد برداشت کریں ۔ انہیں کبھی فتح نصیب ہوگی کبھی شکست لیکن وہ ہر حال میں اپنے نظریات پر ثابت قدم رہیں گے ، کوئی سختی انہیں متزلزل نہ کرسکے گی ۔ کوئی قوت انہیں ڈرا نہ سکے گی ۔ مشکلات اور آزمائشوں کے پے درپے حملوں میں وہ ہمت نہ ہاریں ۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ لوگ اللہ کی نصرت کے مستحق ہوجائیں گے ۔ کیونکہ وہ اللہ کے دین کے امین بن گئے ہیں اور جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں وہ دیانت دار ہیں ۔ وہ اس کو بچانے کی قابلیت رکھتے ہیں اور اس کے لئے وہ جنت کے بھی مستحق ہیں ۔ ان کی روحیں خوف سے آزاد ہوگئی ہیں ، وہ ذلت سے آزاد ہوگئے ہیں ۔ وہ عیش و آرام کے حریص نہیں رہے ۔ بلکہ انہیں اب خود اپنی زندگی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ ایسے حالات میں اللہ کے یہ سپاہی آب وگل کی اس دنیا سے بہت ہی دور ہوجاتے ہیں اور جنت اور اللہ کے زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔
Top