Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 231
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ١۪ وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا١٘ وَّ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مَاۤ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَ الْحِكْمَةِ یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠ ۧ
وَاِذَا
: اور جب
طَلَّقْتُمُ
: تم طلاق دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَبَلَغْنَ
: پھر وہ پوری کرلیں
اَجَلَھُنَّ
: اپنی عدت
فَاَمْسِكُوْھُنَّ
: تو روکو ان کو
بِمَعْرُوْفٍ
: دستور کے مطابق
اَوْ
: یا
سَرِّحُوْھُنَّ
: رخصت کردو
بِمَعْرُوْفٍ
: دستور کے مطابق
وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ
: تم نہ روکو انہیں
ضِرَارًا
: نقصان
لِّتَعْتَدُوْا
: تاکہ تم زیادتی کرو
وَمَنْ
: اور جو
يَّفْعَلْ
: کرے گا
ذٰلِكَ
: یہ
فَقَدْظَلَمَ
: تو بیشک اس نے ظلم کیا
نَفْسَهٗ
: اپنی جان
وَلَا
: اور نہ
تَتَّخِذُوْٓا
: ٹھہراؤ
اٰيٰتِ
: احکام
اللّٰهِ
: اللہ
ھُزُوًا
: مذاق
وَاذْكُرُوْا
: اور یاد کرو
نِعْمَتَ
: نعمت
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَمَآ
: اور جو
اَنْزَلَ
: اس نے اتارا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مِّنَ
: سے
الْكِتٰبِ
: کتاب
وَالْحِكْمَةِ
: اور حکمت
يَعِظُكُمْ
: وہ نصیحت کرتا ہے تمہیں
بِهٖ
: اس سے
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَ
: اور
اعْلَمُوْٓا
: جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
بِكُلِّ
: ہر
شَيْءٍ
: چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے ، تو یا بھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو ۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا یہ زیادتی ہوگی اور جو ایسا کرے گا ، وہ درحقیقت اپنے اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے ، اس کا احترام ملحوظ رکھو ، اللہ سے ڈرو ، اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔
زندگی کے رشتے کٹ رہے ہوں یا جڑ رہے ہوں ، ہر صورت میں اسلام یہ ہدایات دیتا ہے کہ احسان ، حسن سلوک اور معروف و مستحسن طرز عمل کو فضا پر غالب رہنا چاہئے۔ اگر رشتے ٹوٹ رہے ہوں تو نیت یہ نہ ہو کہ فریق مخالف کو اذیت دی جائے ، اسے بطور پالیسی دکھ پہنچایا جائے ۔ جدائی اور طلاق کی فضا میں نفوس اور مزاج ایک دوسرے سے کھنچے رہتے ہیں ، ایسے حالات میں حسن سلوک کا یہ اعلیٰ وارفع معیار صرف اس صورت میں قائم کیا جاسکتا ہے کہ اس کی اساس کسی ایسے اصول پر رکھی گئی ہو جو اس دنیاوی زندگی کے حالات سے بلند تر ہو ۔ ایسا اصول جو دلوں سے حسد اور بغض اور کینہ نکال دے ، زندگی کے آفاق کو وسیع تر کردے ، زندگی کو موجود اور حاضر سے وسیع کرکے غیر موجود اور دوسرے جہاں کو وسیع کردے ۔ یہ اساس صرف اللہ پر ایمان کی اساس ہوسکتی ہے ۔ آخرت پر ایمان کی اساس ہوسکتی ہے ۔ یہ اساس ہوسکتی ہے کہ انسان انعامات الٰہی پر غور کرے ۔ جن میں سب سے بڑی نعمت ، نعمت ایمان ہے ۔ پھر اس نے ہر شخص کو قدر کے مطابق جو فراخی رزق دیا ہے اس پر غور کرے ۔ پھر ہر شخص کو جو صحت اور توانائی دی ہے ، اس پر غور کرے تو انسان کے سوچ کی سطح بلند ہوسکتی ہے ۔ پھر اللہ کا خوف دل میں موجود ہو ، اور یہ امید بھی ہو کہ جو ازدواجی زندگی ناکام ہوگئی ہے جو نقصانات و اخراجات ضائع ہوچکے ، ان کے عوض اللہ تعالیٰ نعم البدل عطا کرسکتا ہے ۔ غرض یہ ہے وہ اساس جسے وہ آیات پیش کررہی ہیں ، جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ رشتہ کٹ رہا ہو یا جڑ رہا ہو ، ہر صورت میں ایثار ، بھلائی اور احسان کا رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ زمانہ جاہلیت میں عورت پر جو مظالم ممکن تھے ، ہوا کرتے تھے ۔ بچپن میں اس پر مظالم ہوتے تھے ، اسے زندہ درگور کردیا جاتا ، اگر زندہ دفن کرنے سے بچ جاتی تو وہ ذلت ، مشقت اور سخت اہانت کی زندگی بسر کرتی ۔ پھر جب وہ ازدواجی زندگی میں قدم رکھتی تو اسے مرد کے عام سامان اور مال کی طرح ایک مال ہی سمجھا جاتا ہے ۔ مال بھی اس درجے کا کہ اس مقابلے میں گھوڑے کی قیمت زیادہ ہوتی ۔ بہت زیادہ اگر ناچاقی کے نتیجے میں خاوند اسے طلاق دے دیتا تو یہ عضو معطل کی طرح پابند رہتی اور جب تک طلاق دینے والا خاوند رحم کھا کر اسے اجازت نہ دیتا وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرسکتی یا اس کے اہل خاندان غیرت میں آکر اسے بند کردے ۔ اور اگر طلاق دینے والا شخص پشیمان ہوکر رجوع کرنا چاہتا تو یہ لوگ اسے اس کے پاس واپس جانے سے روکتے۔ عمومی طور پر عورت کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھا جاتا ۔ معاشرے میں اسے گھٹیا درجے کی شئے تصور کیا جاتا ۔ غرض عرب معاشرہ میں عورت کی وہی حیثیت تھی جس طرح اس دور کے دوسرے جاہل معاشروں میں عورت کی حیثیت تھی ۔ ایسے حالات میں اسلامی نظام کا نزول ہوتا ہے ۔ اب ریگستان عرب کی طوفانی اور گرم ہواؤں کے بجائے ۔ مصیبت زدہ عورت باد نسیم کے خوشگوار جھونکے محسوس کرتی ہے ، جس کے کچھ نمونے ان آیات میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اب عورت کے بارے میں یہ نقطہ نظر دیا جاتا ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی ایک ہی نفس سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ دونوں کا خالق ایک ہے ۔ ازدواجی تعلقات کو محض ذریعہ لذت کے بجائے عبادت اور احسان کا درجہ دیا گیا ۔ اسے فریضہ حیات کا درجہ دیا گیا۔ یہ اس وقت اور ایسے حالات میں دیا گیا جبکہ عورتوں کی کسی انجمن نے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا ، نہ عورت اس وقت ان حقوق کی اہمیت سے واقف تھی ۔ نہ اس وقت عورت کے سرپرست مردوں نے عورت کے حقوق کے لئے کوئی مطالبہ کیا تھا ، نہ ایسا کوئی مطالبہ ان کے تصور ہی میں تھا ، یہ تو اللہ کی رحمت اور فضل کی ایک عام بارش تھی ، جس سے بیک وقت مرد اور عورت دونوں فیض یاب ہوئے اور پوری انسانیت اور انسانی زندگی کو سیراب کیا۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ” اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آجائے ، تو بھلے طریقے سے انہیں روک لو ، یا بھلے طریقے سے رخصت کردو ۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی۔ “ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّکا مفہوم یہ ہے کہ وہ میعاد جو گزشتہ آیت میں مقرر کی گئی ہے ، وہ پوری ہونے کو آجائے ۔ اگر عدت ختم ہونے کو آجائے تو پھر دو طریقے ہیں یا تو معروف طریقے سے ۔ اصلاح احوال کی نیت سے روک لو ، یعنی طلاق سے رجوع کرلو۔ امساک معروف کا یہی مفہوم ہے ۔ اگر اصلاح نیت سے روکنا مطلوب نہیں ہے تو پھر رجوع نہ کرو اور عدت پوری ہونے دو تاکہ عورت کی طلاق ، طلاق بائنہ ہوجائے ۔ یہ ہے معنی تسریح باحسان کا ۔ یعنی بغیر کسی قسم کی ایذارسانی کے ، بغیر فدیہ طلب کرنے کے اور بغیر کسی قسم کی جاہلانہ پابندی کے کہ وہ فلاں جگہ شادی نہ کرے گی یا فلاں حدود کے اندر شادی نہ کرے گی ۔ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ” محض ستانے کی خاطر انہیں روکے نہ رکھنا۔ “ جیسا کہ ہم اوپر ایک انصاری کی روایت نقل کر آئے ہیں جس نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ نہ تو میں تمہیں زوجیت میں لوں گا اور نہ ہی تمہیں طلاق دوں گا ۔ یہ ہے برے طریقے سے روکے رکھنا۔ محض ستانے کے لئے روکے رکھنا ۔ اسلام ایسے روکنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس سلسلے میں ان آیات میں باربار نہیں آئی ہے ۔ یہ مکرر تاکید اس لئے ہے کہ اس وقت کی ععربی سوسائٹی میں یہ ظلم عام تھا۔ بلکہ یہ ظلم ہر اس سوسائٹی میں عام ہوسکتا ہے جسے اسلام نے مہذب نہ بنایا ہو اور جسے ایمان نے اونچا نہ کردیا ہو۔ یہاں اب قرآن مجید انسان کے فہم و شعور میں جوش پیدا کرتا ہے ، انسان کے جذبات شرم وحیا کو بیدار کرتا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ انہیں اپنے برے انجام سے بھی ڈراتا ہے۔ یہ سب ذرائع محض اس لئے استعمال کئے جارہے ہیں کہ انسان کی زندگی سے جاہلیت کے آثار کو ایک ایک کرکے مٹادیا جائے اور اسے شرافت وعزت کے اس بلند مقام تک پہنچادیا جائے جہاں تک اسے اسلامی نظام زندگی ہاتھ پکڑ کرلے جانا چاہتا ہے۔ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اور جو ایسا کرے گا وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا ۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے ۔ اور وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے ، اس کا احترام ملحوظ رکھو ۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔ “ جو شخص عدت گزرنے والی عورت کو محض ستانے کے لئے یا اسے نقصان پہنچانے کے لئے روکے رکھتا ہے ، وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے۔ آخر یہ بیچاری عورت بھی تو بنت آدم ہے اور اس طرح اس کی بہن ہے ۔ اس کی جنس ہے ۔ اگر یہ اس پر ظلم کرتا ہے تو گویا خود اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے ۔ پھر وہ اپنی جان پر بھی ظلم کرتا ہے کہ وہ معصیت کرکے اسے مستوجب سزا رٹھہرارہا ہے ۔ اور راہ اطاعت اسے ہٹارہا ہے ۔ یہ ہے وہ پہلا احساس جو ان آیات میں لایا جارہا ہے۔ معاشرت اور طلاق کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے جو آیات بیان کی ہیں وہ بین ہیں ، ظاہر ہیں ، اور بالکل سیدھی ہیں ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کی تنظیم صداقت اور سنجیدگی پر ہونا چاہئے ۔ کوئی شخص ان آیات کو کھیل نہ بنائے ، انہیں عورت کو محض تکلیف دینے اور اسے ایذاپہنچانے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ یہ رخصتیں تو اللہ تعالیٰ نے اس لئے دیں کہ معاشرتی زندگی امن وقرار کی جگہ بن جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو رجوع کرنے کا حق اس لئے دیا ہے میاں بیوی کی شکر رنجی ختم ہوجائے اور ان کے درمیان ازدواجی زندگی کا از سر نو آغاز ہوجائے ۔ اس لئے نہیں کہ مرد اس حق کا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے اس عورت کو ایذا دینے اور اس پر تشدد کرنے کے لئے استعمال کرے ۔ اگر کوئی شخص اس حق کو اس مطلب کے لئے استعمال کرے گا تو وہ آیات الٰہی کا کھیل بنارہا ہے اور ان سے مذاق کررہا ہے ۔ یہ صورت حال ہمارے موجودہ جاہلی معاشرے میں بہت عام ہے ۔ لوگ فقہی رخصتوں اور فقہی مسائل کو آڑ بناکر ان کی بناپر دھوکہ ، ایذا رسانی اور شر و فساد کا کام کررہے ہیں ۔ نیز مرد کو جو طلاق اور جعت کا حق دیا گیا ہے ، اس سے بھی یہ لوگ بہت ہی غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ، ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی آیات کا کھیل بناتے ہیں اور انہیں اپنی حیلہ سازیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس سارے عمل میں انہیں شرم بھی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ یہاں انسان کے جذبہ حیا اور اعتراف نعمت کو بیدار فرماتے ہیں۔ انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ ان پر اللہ نے جو انعام واکرام کیا ہے ذرا اس پر بھی غور کریں ۔ ان پر اس نے اپنی کتاب نازل فرمائی ، حکمت و دانائی کے ذخائر سے انہیں نوازا ۔ اس وقت کے اہل ایمان کو نعمت الٰہی کا یاددلانا ۔ دراصل اس عظیم انقلاب کی طرف ان کو متوجہ کرنا تھا ، جو ان کی پوری زندگی میں تحریک اسلامی کی وجہ سے رونما ہوگیا تھا۔ ان مسلمانوں کے لئے انعامات الٰہی کا یاد دلایا جانا ایک گہرے مفہوم کا حامل تھا۔ شاید آج کے لوگ اس کا اچھی طرح تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اہل ایمان ، یہ محسوس کرتے تھے کہ انعامات الٰہی میں سے پہلاانعام ان پر یہ ہے کہ جو اس کرہ ارض پر ایک امت کی حیثیت سے موجود ہیں ، ذرا غور کریں کہ عرب اور اعراب اسلام کے آنے سے پہلے تھے کیا ؟ ان کی کیا حقیقت تھی ؟ ان کی کوئی قابل ذکر حیثیت نہ تھی ۔ ان کو دنیا نہ جانتی تھی اور نہ ہی دنیا عربوں کو کچھ سمجھتی تھی ۔ وہ قبائل کی شکل میں ٹکڑے ٹکرے تھے ۔ نہ ان کا کوئی وزن تھا اور نہ کوئی قیمت تھی۔ ان کے پاس کوئی پیغام نہ تھا کہ وہ یہ پیغام انسانیت کو دیتے اور یوں وہ پہچانے جاتے ۔ بلکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جو وہ خود استعمال کرتے اور دوسری اقوام سے کم ازکم بےنیاز تو ہوجاتے ۔ غرض وہ تہی دامن تھے ، کچھ بھی نہ تھا ان کے پاس ۔ نہ کوئی مادی چیز ان کے پاس تھی ، نہ کوئی معنوی چیز ، نہ مصنوعات اور نہ ہی نظریات ۔ وہ فقراء کی طرح غربت کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ ایک قلیل تعداد ایسی تھی جنہیں خوشحال کہا جاسکتا تھا ، لیکن اسکی خوشحالی بھی ایسی تھی جیسے بدویانہ زندگی ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی بدوی کسی ایسی جگہ خیمہ زن ہو جہاں زیادہ شکار ملتا ہو ، یعنی یہ خوشحالی بھی بہت سادہ اور ابتدائی قسم کی تھی ، جسے آج کی دنیا میں خوش حال بھی نہیں کہا جاسکتا۔ عقل ، روح اور ضمیر کے لحاظ سے وہ بالکل تہی دامن تھے ۔ عقائد بالکل مہمل ، بےہودہ اور بہت ہی سادہ قسم کے تھے ۔ زندگی کا تصور ان کے دماغ میں تھا ، وہ بالکل سادہ ، ابتدائی اور قبائلی قسم کا تھا ۔ ان کی زندگی کا ہم مشغلہ لوٹ مار اور ڈاکے ڈکیتی تک محدود تھا ۔ اس سے اگر زیادہ کوئی چیز تھی تو وہ یہ تھی کہ لوگ سخت منتقم المزاج تھے ۔ لہو ولعب ، شراب وکباب اور جوئے اور قمار کے دلدادہ تھے ۔ غرض زندگی کے ہر پہلو میں یہ لوگ بالکل ابتدائی حالت میں تھے۔ یہ تھا قعر مذلت جس میں عرب گرے ہوئے تھے اور یہ تھا اسلام جس نے اس سے انہیں نجات دلائی بلکہ انہیں از سرنو پیدا کیا ۔ نئی زندگی دی ۔ انہیں پیدا کیا اور عظیم وجود انہیں عطا کیا ۔ ایسا وجود جسے پوری انسانیت سے پہچانا ۔ اسلام نے انہیں ایک ایسا پیغام دیا ، جو انہوں نے پوری انسانیت کو عطا کیا ۔ یوں عرب بھی اس پیغام کی وجہ سے نامور ہوگئے ۔ اسلام نے ان کو ایک عظیم نظریہ حیات دیا ، مکمل نظریہ حیات ۔ اس نظریہ حیات نے اس کائنات کی وہ تشریح ، دل لگتی تشریح کی جو اس سے قبل کسی نظریہ حیات نے نہ کی تھی ۔ اس نظریہ حیات نے انہیں قیادت کا مقام عطا کیا اور انہوں نے انسانی تاریخ میں پوری انسانیت کی قیادت کی ۔ بہت اعلیٰ وارفع قیادت کی ۔ برادری اقوام میں ان کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔ اس نظریہ حیات اور اس پیغام کی بدولت انہوں نے اقوام عالم کی صف میں ایک عالی مقام اور مرتبہ بلند حاصل کیا بلکہ ان کی شخصیت امور عالم میں ممتاز شخصیت بن گئی ۔ پھر اس نظریہ حیات نے انہیں ایک ایسی عظیم قوت کی شکل میں نمودار کیا کہ پوری دنیا اس قوت سے خائف ہوگئی اور اسے قابل قدر اہمیت دینے لگی ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ عربوں کے اردگرد پھیلی شہنشاہیتوں کے خدام سمجھے جاتے تھے ۔ یا ایسی گری پڑی قوم اور بدوی قبائل سمجھے جاتے تھے ، جن کی طرف سرے سے کوئی متوجہ ہی ہوتا۔ اور پھر سب سے ممتاز چیز یہ کہ اس فقر کے مقابلے میں اسلام نے ان لوگوں کو عظیم دولت و ثروت سے نوازا۔ دولت کے دروازے ہر طرف سے کھل گئے اور تمام دنیا کی ثروت ان کے پاس جمع ہوگئی ۔ اور سب سے بڑی چیز یہ کہ اسلام نے امن وسلامتی دی ۔ نفس کی سلامتی ، گھر کا امن اور معاشرے کا سکوں دیاجس میں عیش و عشرت سے زندگی بسر کرنے لگے ۔ ان کے دل مطمئن ہوگئے ، ان کے شعور وضمیر میں فرحت آگئی اور جو نظام زندگی انہوں نے پایا وہ اس پر جم گئے ۔ اور انہیں وہ سربلندی دی ، وہ اونچا مقام دیا کہ جہاں سے وہ پوری انسانیت کے گم کردہ راہوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ جاہلیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں راہ حیات گم کئے ہوئے ہیں اور ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور پوری دنیا کی یہی حالت ہے ۔ اس مقام بلند پر انہیں احساس ہوجاتا ہے کہ فی الواقعہ وہی اعلون ہیں ، وہی سربلند ہیں اور اللہ نے انہیں دولت دی ہے جس سے پوری آباد دنیا محروم ہے۔ ان حالات میں جب قرآن مجید اہل ایمان عربوں کو اپنے انعامات یاددلاتا ہے تو ان انعامات کی فہرست دینے یا اس دعوت تذکیر پر ان کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ خود ان کی پوری زندگی ہی انعامات الٰہیہ کی ایک نمونہ تھی ۔ وہی لوگ تھے جو جاہلیت کے زمانے میں ایک عرصے تک پس رہے تھے اور وہی ہیں جو اب اسلامی نظام حیات کی برکات سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ وہ اپنی آنکھوں سے اس عظیم انقلاب کا مشاہدہ کررہے تھے جس کے بارے میں انسان تصور بھی نہ کرسکتا تھا اور جو اسلام اور قرآن کا ایک زندہ معجزہ تھا ۔ وہ اللہ کی کتاب اور اس میں بیان کردہ حکیمانہ فلسفہ حیات کی صورت میں اس نعمت عظمیٰ کا یاد کیا ، دیکھ ہی رہے تھے وہ اس کا زندہ نمونہ تھے ۔ قرآن انہیں خطاب کرکے کہہ رہا تھا وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْجو تم پر نازل کیا گیا ، انہیں مخاطب کرکے کہا گیا تم پر ، تاکہ وہ اس انعام کی عظمت کا شعور پیدا کرسکیں ۔ اس کی گہرائی تک پہنچ سکیں اور یہ دیکھ سکیں کہ یہ انعام الٰہی ان کے لئے ہے ، ان پر حاوی ہے اور ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے ۔ اللہ یہ آیات حکمت ان پر نازل کررہا ہے جو آیات اسلامی نظام زندگی کی تشریح وتکمیل کررہی ہیں اور مسلمانوں کا عائلی ضابطہ بھی اسی ربانی نظام کا ایک حصہ ہے ۔ اب ذرا آخری احساس دیکھئے ۔ آخری بار چٹکی بھری جاتی ہے۔ متنبہ کیا جاتا ہے کہ جاگو ، سوچو کہ اللہ تو علیم بذات الصدور ہے ۔ جانو کہ وہ جاننے والا ہے ، سنبھل کر رہو وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے ۔ “ حیا اور شکر کے بعد اب یہاں خوف اور خبرداری کے جذبات کو بیدار کیا جارہا ہے۔ یوں نفس انسانی کو ہر طرف سے گھیر کر اسے حسن سلوک ، مشفقانہ طرز عمل اور سچائی کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
Top