Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو ، خصوصاً اس نماز کی جو درمیان میں ہے ۔ اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو جیسے فرمان بردار غلام کھڑے ہوتے ہیں ۔
یہاں حکم دیا جاتا ہے نماز کی حفاظت کرو ۔ یعنی اسے اپنے وقت پر ، تمام ارکان نماز صحیح ادا کرتے ہوئے تمام شرائط پوری کرتے ہوئے ادا کرو۔ راحج قول یہ ہے کہ صلوٰۃ وسطی سے نماز عصر مراد ہے ۔ یوم احزاب کے موقع پر رسول ﷺ نے فرمایا :” ہمیں ان لوگوں نے درمیانی نماز سے مشغول کردیا ، نماز عصر سے ، اللہ ان کے گھروں اور دلوں کو آگ سے بھردے۔ “ نماز عصر کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے کیا گیا کہ اکثر اوقات قیلولہ کے بعد نماز آتی ہے اور اس کے قضا ہونے یا موخر ہونے کا خطرہ رہتا ہے ۔ راحج قول یہ ہے کہ قنوت کے معنی عاجزی اور خشوع کے ہیں ۔ نماز میں اس کی یاد کی طرف یکسو ہوجانے کا مفہوم بھی اس میں داخل ہے ۔ ایک وقت تک سخت ضرورت کے وقت مسلمان ، نماز کے دوران ، ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرلیا کرتے تھے ۔ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں نے جان لیا کہ اللہ کے ذکر ، خشوع اور یکسوئی کے سوا کوئی اور شغل نماز کے دوران جائز نہیں ہے ۔ اگر حالت خوف وخطر کی ہو اور ممکن نہ ہو کہ قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کی جاسکے تو بھی نماز ادا ہوگی ۔ اسے موقوف نہ کیا جائے گا۔ اگر کوئی سواری پر سوار ہے یا کوئی خطرے کی حالت میں ہے مدافعت پر مامور ہے تو اس کے لئے جس طرح ممکن ہو ، اس طرف منہ کرکے پڑھ لے ۔ اشارے سے پڑھے اور رکوع و سجود کے لئے خفیف اشارہ کرے ۔ یہ نماز اس سے مختلف ہے ، جسے صلوٰۃ الخوف کہا جاتا ہے ۔ اور جس کی تفصیل سورت نساء میں بیان کی گئی ہے ۔ وہ نماز ایسی حالت میں ادا ہوتی ہے ، جہاں ایسے حالات ہوں کہ مسلمانوں کا صف میں کھڑا ہونا ممکن ہو ، یوں امام کھڑا ہو اور ایک صف آکر ایک رکعت پڑھ لے ۔ پھر دوسری صف آجائے اور وہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے ۔ اور دوسری صف اس کی حفاظت میں کھڑی رہے ۔ یہاں جس نماز کا ذکر کیا گیا ہے ، اس سے مراد وہ نماز ہے ، جو ایسے حالات میں ادا کی جارہی ہو جہاں جنگ عملاً شروع ہو ، تلواریں چل رہی ہوں ، فائرنگ ہورہی ہو اور صف بستہ ہونا ممکن نہ ہو۔ یہ ایک عجیب بات ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کی اہمیت کتنی زیادہ ہے ۔ مسلمانوں کو یہاں اشارہً بتایا جاتا ہے کہ خوف اور شدائد جنگ کی انتہائی حالت میں بھی نماز پڑھنی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس قدر خوف میں ، عین جنگ کے وقت ، تلوار ہاتھ میں ہو بلکہ دشمن کی تلوار سر پر ہے ، لیکن نماز کی ادا ہورہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز مرد مومن کا اسلحہ ہے ، اس کا سامان جنگ ہے ۔ وہ مومن ایک دفاعی تدبیر ہے ۔ ایسے حالات میں مومن نماز میں کھڑا ہوجاتا ہے تو وہ اللہ تک پہنچ جاتا ہے اور یہی وقت ایسا ہوتا ہے جس میں اللہ تک پہنچنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسے ماحول میں ، جس میں انسان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہو ، اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ کیا خوب دین ہے ہمارا ۔ یہ عبادت کا نظام ہے ۔ مختلف شکلوں اور مختلف عنوانوں سے عبارت ، جن میں نماز ایک جلی سرخی ہے ۔ اس عبادت کے ذریعے یہ دین ، انسان کو بلند مقام تک پہنچاتا ہے ۔ اس عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مومن کو شدائد کے وقت ثابت قدم کردیتا ہے ۔ اس عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ، امن وامان کے دور میں ایک مومن کو مہذب بنادیاتا ہے۔ اس عبادت ہی کے ذریعہ ایک مومن پورے کا پورا ایک ایسی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے جو امن و سکون کی دنیا ہے ۔ جہاں اس پر اطمینان اور سلامتی کی بارش ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عبادت کی سخت تاکید عین ایسے حالات میں بھی کی جاتی ہے جبکہ تلواریں سروں کو کاٹ رہی ہوں اور گردنوں کو اڑارہی ہوں ۔
Top