Mazhar-ul-Quran - Al-Baqara : 255
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا ، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
نظریہ ایک ایسی چیز ہے کہ بیان وادراک کے بعد یہ سمجھنے اور سمجھانے کی چیز ہے ۔ جبر وتشدد اور ظلم وعدوان کے نتیجے میں نظریات نہیں پھیلائے جاسکتے اور یہی پالیسی اسلام نے اسلامی نظریہ حیات کی بابت اختیا رکی ہے ۔ دین اسلام اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ انسانی قوت مدرکہ کو خطاب کرتا ہے ۔ وہ غوروفکر کرنے والے دماغوں کو خطاب کرتا ہے ۔ اور ایک واضح سوچ دیتا ہے ۔ اور وہ اثر پذیر وجدان کو مخاطب کرتا ہے ۔ اسلام فطرت سلیمہ کو خطاب کرتا ہے بلکہ پوری انسانی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے اور وہ انسانی فہم وادراک کے ہر پہلو کو آزماتا ہے ۔ جس میں وہ جبر وتشدد کو کام میں نہیں لاتا ۔ یہاں تک کہ وہ نظریہ حیات دینے میں خوارق عادت ذرائع کا بھی زیادہ استعمال نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ خوارق عادت واقعات کے نتیجے میں ذہن انسانی اگرچہ یقین کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے لیکن یقین کے باوجود ذہن انسانی اس حقیقت کے فہم وادراک سے قاصر رہتا ہے ۔ بات انسان کی عقل میں نہیں اترتی کیونکہ خارق عادت مناظر کی وجہ سے وہ عقل وادراک کے دائرے سے باہر ہوتی ہے۔ اگر دین اسلام ، اسلامی نظریہ حیات کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لئے خارق عادت مناظر اور معجزات کا استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتا ، اس لئے کہ یہ بھی مخاطب کو ایک طرح مجبور کرنا ہوتا ہے کہ وہ مان لے ، تو اسلامی نظریہ کے پھیلانے میں جبر واکراہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسلام کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو دباؤ اور تہدید کے ذریعہ دائرہ اسلام میں داخل کرے ، اس معاملہ میں اسلام صرف تبلیغ اور تلقین افہام و تفہیم سے کام لیتا ہے ۔ اور وہ لوگوں کے دل و دماغ کو مطمئن کرتا ہے۔ اسلام سے قبل مسیحیت آخری دین حق تھا۔ اس کے پیروکاروں نے اس کے پھیلانے کے لئے اسلحہ کا استعمال کیا ۔ لوگوں کو زندہ جلایا گیا ۔ اور جوں ہی شہنشاہیت روما کے فرمانروا قسطنطین نے عیسائیت کو قبول کیا ، حکومت نے جبر وتشدد کے تمام وسائل استعمال کئے اور لوگوں کو مسیحیت قبول کرنے پر مجبور کیا ۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی حکومت ان مسیحیوں کے خلاف جبر وتشدد کے تمام وسائل بروئے کار لاچکی تھی جنہوں نے برضاء ورغبت عیسائیت کو قبول کیا تھا۔ سلطنت روما کا یہ جبر وتشدد صرف ان لوگوں کے خلاف نہ تھا جو مسیحیت قبول نہ کررہے تھے بلکہ یہ جبر وتشدد ان صحیح العقیدہ مسیحیوں کے خلاف بھی بڑی بےدردی سے جاری رہا جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ذات کے بارے میں حکومت روما کے غلط عقائد تثلیث قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے ۔ جب اسلام آیا تو اس کا پہلا اعلان ہی یہ زریں اصول تھا کہ اسلام کے قبول کرنے پر کسی کو مجبور نہ کیا جائے ۔ گمراہی سے ہدایت بالکل الگ ہوگئی ہے ۔ اب یہ لوگوں کا اپنا کام ہے کہ وہ برضا ہدایت قبول کریں۔ اس اصول کو وضع کرکے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت و کرامت سے نوازا ۔ اس کے ارادے ، اس کی فکر اور اس کے شعور کا احترام کیا گیا اور نظریاتی ہدایت وگمراہی کے اختیار کرنے میں اسے آزاد چھوڑ دیا ہے ۔ اسے کہہ دیا گیا کہ وہ ایک ذمہ دار ذات ہے ۔ اس سے اس کے افعال و اعمال کا حساب لیاجائے گا ۔ یہ آزادی انسانی آزادیوں میں سے اہم ترین آزادی ہے جو اسلام نے انسان کو عطا کی ۔ یہ وہ آزادی ہے جس سے انسان اس بیسویں صدی میں بھی محروم ہے ۔ متعصب نظریات اور ظالمانہ نظامہائے زندگی آج بھی انسان کو یہ آزادی نہیں دیتے ۔ ذات انسانی جسے اللہ نے مکرم بنایا ہے آج اسے اپنے عقائد کے معاملے میں مجبور ومقہور بنادیا گیا ہے ۔ اسے مجبور کیا جارہا ہے کہ یا تو ان نظریات کو اپنائے جسے حکومت وقت اپنے تمام وسائل اور میڈیا کے ذریعہ پھیلاتی ہے اور جو ایسے نظریات ہیں جو انکار خدا کے تصورات پر مبنی ہیں اور یا وہ موت کے لئے تیارہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی آزادی وہ پہلا حق ہے جو انسان کو بحیثیت ملنا چاہئے ۔ جو شخص یا نظام انسان سے نظریاتی آزادی چھین لیتا ہے ، وہ درحقیقت انسان سے اس کی انسانیت سلب کرلیتا ہے ۔ نظریاتی آزادی کا پھر فطری تقاضا ہے کہ انسان کو اپنے عقیدہ کی تبلیغ کی بھی اجازت ہو ۔ اور ایسا کرنے میں وہ محفوظ ومامون بھی ہو ۔ اگر حریت عقیدہ کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی نہ ہو تو آزادی رائے بےمعنی ہوجاتی ہے اور اس میں کوئی واقعیت نہیں رہتی ۔ اسلام زندگی اور موجودات کا ایک بہترین تصور ہے اور وہ بلاشک وشبہ ایک بہترین اور مستحکم نظام زندگی ہے ۔ یہ اسلام ہی ہے جو ببانگ دہل پکار رہا ہے کہ اختیار کردہ دین میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے ۔ وہ اپنے قبول کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو دین اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ۔ جب اسلام جیسا دین فطرت لوگوں کو مسلمان بنانے کے لئے مجبور نہیں کرسکتا تو اس کے دوسرے مروجہ ادیان باطلہ کو یہ اجازت کیسے دی جاسکتی ہے کہ وہ محض حکومت کے بل بوتے پر ان ادیان کے نہ ماننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیں۔ یہاں جبر واکراہ کی مطلق نفی کی گئی ہے ۔ یعنی دین میں سرے سے جبر نہیں ہے ۔ یعنی جنس جبر کا وجود دین میں نہیں ہوگا ۔ یعنی جبر کا وجود ہی نہ ہوگا۔ وہ وقوع پذیر ہی نہ ہوگا۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ تم جبرکا ارتکاب نہ کرو۔ یعنی جبر تو ہوگا مگر تم جبر کا ارتکاب نہ کرو ۔ جنس جبر اور وجود جبر کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سخت تاکید فرما رہے ہیں کہ اسلام میں جبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ انداز کلام نہایت ہی مؤثر ہے ۔ یہاں سیاق کلام ، انسانی ضمیر کو ٹچ کرتا ہے اور اسے جگا دیتا ہے ، اسے راہ ہدایت اختیار کرنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔ اسے راہ راست کی طرف موڑ دیتا ہے اور یہ بیان کردیا جاتا ہے کہ جس حقیقت ایمانی کا اعلان کیا گیا ہے وہ واضح اور متمیّز ہوچکی ہے ۔ فرماتے ہیں قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ................ ” راہ ہدایت غلط راہوں سے الگ کردی گئی ہے ۔ “ ایمان کی راہ ، راہ ہدایت ہے ۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اسے پالے اور اس کی طرف لپکے ۔ اور کفر بےراہ روی ہے ۔ انسان کو چاہئے کہ اس سے نفرت کرے اور اس سے منسوب ہونے کے مواقع اپنے لئے فراہم نہ کرے ۔ عملی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ انسان دولت ایمان کی حقیت کو پانے کی کوشش نہیں کررہا ہے ۔ ایمان انسانیت کو ایک صاف ستھرا تصور حیات دیتا ہے ۔ وہ انسانیت کو اطمینان قلب اور سلامتی عطا کرتا ہے ۔ وہ انسان کے دل و دماغ میں اعلیٰ قدریں اور پاک ترجیحات پیدا کرتا ہے ۔ وہ انسانی معاشرہ کو ایک صحت مند نظام زندگی اور ترقی پذیر پالیسی عطا کرتا ہے۔ جس سے زندگی ترقی یافتہ اور متنوع بن جاتی ہے ۔ ان خطوط پر اگر انسان حقیقت ایمانی پر غور کرتا تو پھر کوئی بیوقوف ہی ہوتا جو راہ ایمان کو اختیار نہ کرتا ۔ ہدایت چھوڑ کر گمراہی لیتا ، سیدھی راہ چھوڑ کر ٹیڑھی راہ اختیار کرتا ۔ اطمینان ، سلامتی ، بلندی اور علوشان کے مقابلے میں بےاطمینانی ، پریشانی ، گراوٹ اور گمراہی اختیار کرتا۔ اس کے بعد حقیقت ایمانی کی مزید وضاحت اور تشریح کرتے ہوئے کہا جاتا ہے فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ لَهَا ................ ” اب جو طاغوت کا انکار کرکے ، اللہ پر ایمان لے آیا ، اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا ، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ “ الطاغوت ، طغیان سے ہے ۔ مفہوم ہے ہر وہ شخص جو صحیح فکر سے تجاوز کرجائے جو حق سے سرکشی کرے ۔ جو ان حدود سے آگے بڑھ جائے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے قائم کئے ہیں ۔ اس کا اللہ کے بارے میں کوئی باضابطہ عقیدہ نہ ہو ۔ وہ اللہ کی شریعت کا پابند نہ ہو۔ اسی طرح ہر وہ نظام طاغوتی نظام ہے جو ذات باری سے اخذ نہ کیا گیا ہو۔ اسی طرح ہر وہ عقیدہ ، وہ تمام عادات وتقالید جو ذات باری سے مستفاد نہ ہوں ، طاغوت ہیں ۔ پس راہ راست پر وہی شخص ہے جو طاغوت کی ان تمام شکلوں اور تمام صورتوں کا انکار کردے اور صرف اللہ وحدہ پر ایمان لائے اور وہی کامیاب ہے ۔ اور اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح ایک شخص مشکل حالات میں ایک مضبوط سہارا تھام لے جو گرنے والا نہ ہو۔ یہاں آکر ہم اپنے آپ کو ایک شعوری حقیقت کی محسوس تصویر سامنے پاتے ہیں ۔ اللہ پر ایمان لانا دراصل ایک ایسے سہارے کا دستیاب ہونا ہے جس کے کبھی کوئی زوال نہیں ہے ۔ یہ ایک ناقابل انقطاع ٹھوس سہارا ہے جو شخص بھی اس سہارے کو مضبوطی سے پکڑلے وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا۔ اس سہارے کا براہ راست اس ذات سے تعلق ہے جو کامیابی اور ناکامی کا مالک ہے ۔ ایمان دراصل اس حقیقت کبریٰ تک رسائی کا نام ہے جس کی ذات سے اس کائنات کے تمام حقائق قائم ہیں یعنی ذات باری تک رسائی ۔ ایمان اس ناموس اکبر تک رسائی کا نام ہے جو ذات باری نے کائنات کے لئے وضع کیا ہے ۔ اور جس پر یہ کائنات قائم ہے ۔ اور جو شخص ایمان کو مضبوط کرلیتا ہے وہ راہ راست پر پڑ کر اپنے رب تک جاپہنچتا ہے ۔ اس کے پاؤں نہیں ڈگمگاتے ۔ وہ پیچھے نہیں رہتا اور نہ وہ بھول بھلیوں میں پڑتا ہے ۔ نہ بےراہ روی میں پڑتا ہے اور نہ گمراہی کا شکار ہوتا ہے۔ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ................ ” اور اللہ سن کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔ “ وہ مختلف بولیوں کی بات سنتا ہے ۔ وہ دلوں کے مضمرات کو جانتا ہے ۔ اس لئے جو شخص اس ذات پر ایمان لے آئے وہ گھاٹے میں نہ رہے گا۔ اس پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ اور نہ ہی وہ کبھی ناکام ہوگا۔
Top