Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے لوگوجو ایمان لائے ہو ، جب کسی مقررہ مدت کے لئے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو ، تو اسے لکھ لیا کرو ۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہئے ۔ اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہئے کہ جو معاملہ طے ہوا اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے ۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املا نہ کرسکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں میں سے دوآدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے ۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہئیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہوگواہوں کو جب گواہ بننے کے لئے کہا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا چاہئے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، معیاد کی تعین کے ساتھ ساتھ اس کی دستاویز لکھوالینے میں تساہل نہ کرو ۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لئے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ۔ اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کرلیا کرو۔ “ کاتب اور گواہ کو نہ ستایا جائے ۔ ایساکروگے تو گناہ کا ارتکاب کروگے ۔ اللہ کے غضب سے بچو ۔ وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔ “
درس 21 ایک نظر میں درس سابق کا موضوع سودخوری اور صدقہ تھا ، اس درس میں اسی موضوع کے تکمیلی احکام بابت قرضہ جات ، تجارت وغیرہ کا ذکر ہے ۔ درس سابق میں سودی کاروبار کو ممنوع قرار دیا گیا ۔ اسی طرح وہاں سودی قرضہ جات اور سودی نظام تجارت اور بیع وشراء کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ قرض حسن ، جس میں ربا کا کوئی شبہ نہ ہو ، جس پر کوئی سودی منافع عائد نہ ہو ، کی بات ہورہی ہے ۔ ان تجارتی امور پر بحث ہورہی ہے جو دستی طور پر طے ہوتے ہیں اور جن میں کسی قسم کے سودی نفع کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ اس درس پر ایک نظر ڈال کر انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم قانون سازی کے لئے جو انداز تعبیر اختیار کرتا ہے وہ حیران کن انداز ہے ۔ قانون مدعی کو اس باریک بینی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ اس میں کسی لفظ کو بدل کر دوسرا لفظ اس کی جگہ نہیں رکھا جاسکتا ۔ کوئی فقرہ نہ بدلاجاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے ۔ اس خالص قانونی انداز تعبیر کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی خوبصورت ادیبانہ طرز ادا اور الفاظ کی خوشگواری اور مٹھاس اور روانی میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ قانونی مدعا دینی وجدان کے رنگ میں بیان ہوتا ہتے ۔ جو بہت ہی لطیف انداز میں اور نہایت ہی اثر آفرینی کے ساتھ اور بہترین طرز کے ساتھ جبکہ اس آیت کے ربط میں بھی کوئی خلل نہیں آتا ۔ اور مکمل قانونی مدعا بھی بیان ہوجاتا ہے ۔ اس میں معاہدہ کرنے والے فریقین کے درمیان جو جو احتمالات ہوسکتے ہیں ، جو جو موقف بھی ہوسکتا ہے ، لکھنے والوں کی ذمہ داری ، گواہوں کی ذمہ داری وغیرہ سب امور کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ غلط طور پر اثر انداز ہونے والے تمام عوامل کی نفی کردی گئی ہے ۔ اور ہر ممکن صورت کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ بیان مدعا میں ایک قانونی نکتے سے دوسرے قانونی نکتے کی طرف منتقل ہونے سے پہلے اسے مکمل طور پر بیان کردیا جاتا ہے۔ جسے دوبارہ نہیں دہرایا جاتا ۔ الایہ کہ اسکے اور جدید نکتے کے درمیان کوئی خاص تعلق ہو ۔ اس صورت میں پہلے بیان کردہ قانونی نکتے کے ساتھ اسے جوڑ دیا جاتا ہے اور اشارہ کردیا جاتا ہے۔ قرآن کریم جس طرح اپنی قانون سازی کے لئے انتخاب الفاظ وفقرات میں اعجاز رکھتا ہے ، اسی طرح وہ انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات میں بھی صاحب اعجاز ہے ۔ بلکہ قانونی عبارات میں اس کا اعجاز عام آیات سے بھی زیادہ واضح اور حیران کن ہے ۔ یہاں کوئی بھی قانونی مدعا اور اصول ایسے لطیف اور ٹیکنیکل پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے کہ کسی ایک لفظ کو بھی کسی دوسرے لفظ سے بدل کر وہ مدعا حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ کسی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ نہیں لے سکتا ۔ اگر قرآن مجید معجزہ نہ ہوتاتو خالص قانونی تعبیرات میں ، اس طرز ادا کے ساتھ ، کالص ادبی اور فنی پیرایہ اظہار میں کلام نہ کیا جاسکتا ، جس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ دیوانی ، شہری ، اقتصادی اور تجارتی معاملات میں دور جدید سے بھی تقریباً ایک ہزار سال پہلے قرآن کریم نے یہ قانون سازی کی ہے ۔ جسے تمام جدید ماہرین قانون تسلیم کرتے ہیں اور فقہاء اور محدثین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم اس معاملے میں سرخیل ہے ۔ یہ ایک عام قانون ہے اس آیت میں طے کیا گیا ہے ۔ اس آیت کی رو سے کسی معاہدے کا لکھنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ اور اگر کسی قرضے کا معاملہ ہو اور اس قرضے کے سلسلے میں کوئی معیاد مقرر ہو تو اس صورت میں اس کا تحریر میں آنا فرض ہے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تحریر میں نہ لائے ۔ اور اس کی حکمت بھی اس آیت کے آخر میں بیان کردی گئی ہے ۔ یہاں اس شخص کو بھی متعین کردیا گیا جو ان قرضہ جات کے سلسلے میں دستاویز تیار کرے گا۔ مثلا عرضی نویس ، یہ ایک تیسرا شخص ہوگا ۔ فریقین میں سے کوئی نہ ہوگا۔ کسی معاملے میں فریقین معاہدہ کے علاوہ تیسرے شخص کو بلانا ، محض زیادہ احتیاط کے لئے ہے تاکہ کوئی شک نہ رہے ۔ پھر کاتب کو بھی یہ حکم دیا گیا کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ لکھے گا ۔ فریقین میں سے کسی کی طرفداری نہ کرے گا۔ عبارت میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرے گا۔ اس لئے کہ لکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے یعنی کاتب کو بھی اللہ کی جانب سے حکم دیا جارہا ہے ۔ تاکہ وہ پیچھے نہ ہٹے ۔ لکھنے سے انکار نہ کرے اور لکھنے کا یہ کام اس کے لئے ایک بوجھ نہ ہو ۔ یہ تو اب اللہ تعالیٰ کی جانب سے منصوص فریضہ ہے ۔ اور ازروئے قانون یہ لکھنے والی کی ڈیوٹی ہے ۔ اور اس کا معاوضہ بھی اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ لکھنے کا عمل اس کی جانب سے اللہ تعالیٰ کے ہاں شکر نعمت ہے ۔ اللہ ہی ہے جس نے اپنا فضل کرکے اسے لکھنے کا فن سکھایا ۔ اس لئے اسے معاہدات کو تحریر میں لانا چاہئے کیونکہ اللہ ہی نے اسے یہ علم دیا ہے۔ یہاں تک شارع نے معیادی قرضے کو تحریر میں لانے کی قانونی دفعہ کو ختم کردیا۔ یہ بھی متعین کردیا گیا کہ لکھنے کی ڈیوٹی کون سر انجام دے گا ۔ اس پر یہ فریضہ عائد کردیا گیا کہ وہ لکھے ، اسی اثناء میں کاتب کو یہ بھی یاددلایا گیا کہ وہ اس ضمن میں اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرے ۔ اشارہ اس طرف ہے کہ صاحب فن ہونے کی وجہ سے اس کا فرض ہے کہ وہ لکھنے میں عدل و انصاف کے دامن کو تھامے رکھے۔ اس پہلہ دفعہ کی تکمیل کے بعد اب دوسری دفعہ کیفیت تحریر کے بارے میں ہے ۔ مدیون ، جس پر حق آرہا ہو ، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ دستاویز املاء کرائے ۔ قرضے کا اعتراف کرے ۔ قرضے کی مقدار لکھوائے ۔ اس کی شرائط طے کرے اور نوٹ کرائے اور اس کی میعاد لکھوائے ۔ یہ اس لئے کہ مدیوں کے ساتھ تحریر وستاویز میں کوئی زیادتی نہ ہوجائے ۔ کیونکہ اگر قرض فراہم کرنے والا دستاویز طے کرائے تو وہ شرائط یاقرضے میں اضافہ کرسکتا ہے ۔ میعاد میں کمی بیشی کرسکتا ہے ۔ یا اپنی مصلحت ومفاد کے لئے کچھ شرائط اس میں لکھ سکتا ہے ۔ اس لئے قرض لینے والا کمزور پوزیشن میں ہوتا ہے ۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ، دائن کی املاء کی اس مخالفت کرنے کی جراءت نہ کرسکے ۔ اس لئے کہ وہ سودا ہر صورت میں کرنا چاہتا ہے اور اسے سخت ضرورت ہے اور اس صورت میں دائن املاء کرکے اس کے ساتھ زیادتی کرے ۔ لیکن خود اگر مدیون دستاویز لکھوا رہا ہو تو وہ اپنی بات لکھوائے گا ، جو اس نے بطیب نفس قبول کی ہو ۔ ایسی صورت میں اس کا اقرار زیادہ قوی اور مضبوط ہوگا ۔ کیونکہ اس نے خود تحریر کو املاء کیا ہوتا ہے ۔ لیکن ساتھ ساتھ مدیوں کے ضمیر کو بھی بیدار کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ خوفی کو پیش نظر رکھے ۔ اور اس کے ذمے جو قرض ہے ۔ اس میں سے کسی چیز کو بھی کم نہ کرے ۔ اور نہ ہی اس دستاویز کی ضروری شرائط میں سے کسی ایک کو ترک کرے ۔ اگر مدیون نادان ہو ، اپنے معاملات کو اچھی طرح طے نہ کرسکتا ہو ، یا وہ ضعیف ہو یعنی عمر میں کم ہو یا ضعیف العقل ہو ، یا کسی اور عذر کی وجہ سے وہ املا نہ کرسکتا ہو یعنی ان پڑھ ہے ، جاہل ہے ۔ یا اس کی زبان میں کوئی لکنت وغیرہ ہے ۔ یا کوئی محسوس یا معقول سب ہو ، تو اس صورت میں اس کا ولی الامر یہ کام کرے اور اس ولی الامر کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ بھی فریقین کے ساتھ انصاف اور عدل سے معاملہ کرے ۔ یہاں عدل کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ بعض اوقات ولی الامر بھی لاپرواہی کرسکتا ہے ۔ اس لئے کہ قرضے کا تعلق اس کی ذات سے نہیں ہے تاکہ وہ اس تحریر میں تمام مفادات اور گارنٹیوں کو ضابطہ بند کردے ۔ اور یہ معاہدہ صحیح طور پر طے ہوجائے۔ یہاں آکر تحریری معاہدہ کے سلسلے میں بات ختم ہوجاتی ہے اور تحریر معاہدہ بابت قرضہ جات کے تمام پہلوؤں پر بحث مکمل ہوجاتی ہے ۔ اور اب معاہدے کے دوسرے ضروری جزء پر بات ہوتی ہے ۔ یعنی گواہان دستاویزات (Margucl Witnessess) ہر معاہدے ہر دوگواہوں کی شہادت ضروری ہے ۔ اور وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جن کی گواہی مقبول ہو ۔ ترضون کے دومفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ گواہ عادل ہوں اور امت میں ان کی شہادت کو قبولیت حاصل ہو۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ان کی شہادت پر معاہدے کے ہر دو فریق راضی ہو۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں کہ شہادت میسر نہیں ہوتی اس لئے یہاں قانون میں یہ سہولت رکھ دی گئی ہے کہ اگر مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بن سکتی ہیں ۔ گواہی کا کام مردوں کے سپرد اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک صحت مند اسلامی معاشرہ میں عموماً مرد ہی یہ کام کرتے ہیں ۔ کیونکہ اسلامی معاشرہ میں بالعموم ، عورت کو اپنی ضرریات زندگی کے لئے جدوجہد نہیں کرنی پڑتی ۔ وہ بحیثیت ماں اور بحیثیت صنف نازک اپنے فرائض سر انجام دیتی ہے ۔ اور اس کا سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کے سب سے بڑے سرمایہ یعنی بچوں کی پرورش اور تربیت کا کام کرے جو مستقبل کے نمائندے ہوتے ہیں اور ان بچوں کی قدروقیمت ان چند لقموں اور چند ٹکوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔ جو کوئی عورت اپنے عمل سے کماسکتی ہے ۔ جب کہ آج کے بےراہ اور محروم معاشرہ میں عورت کو مجبوراً اپنے ان فرائض کے ساتھ یہ کام بھی کرنا پڑتا ہے ، تو ایسے حالات میں اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بن جائیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایک مرد کے مقابلے میں عورتیں دو کیوں رکھی گئی ہیں ؟ قرآن کریم نے اس بات کو مجمل نہیں چھوڑا ہے ۔ اس لئے کہ قانون سازی کے میدان میں ہر عبارت واضح ، متعین اور قانون سازی کے اصل سبب پر مشتمل ہونا چاہئے۔ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى................ ” تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔ “ سوال یہ ہے کہ عورت بھولتی کیوں ہے ؟ اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں کبھی یہ سبب ہوسکتا ہے کہ عورتوں کو عموماً معاہدات کے میدان میں زیادہ تجربہ نہیں ہوتا ۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ کسی معاہدے کے حالات اور شرائط پوری طرح اس کے ذہن میں نہ بیٹھے ہوں ۔ اور وہ مقدمہ بازی کے وقت ان کے بارے بالکل اچھی طرح شہادت نہ دے سکتی ہو ۔ اس لئے سہولت کے لئے دوسری عورت کو ساتھ رکھا گیا تاکہ شہادت کے وقت وہ اسے اصل بات یاد دلادے ۔ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور موضوع متازعہ کے اصل حالات کو ذہن میں لاسکیں ۔ کبھی اس بھول سبب یہ ہوتا ہے کہ عورت بہت زیادہ منفعل مزاج ہوتی ہے ۔ عورت کی مامتا اور اس کی جسمانی اور عضویاتی اور طبیعاتی وظائف کا بھی یہ اہم تقاضا ہے کہ عورت منفعل ہو ۔ جلد لبیک کہنے والی ہو تاکہ وہ بچے کی نشوونما کے سلسلے میں اپنے طبیعی فرائض اچھی طرح سر انجام دے سکے ۔ یہ فرائض ایسے ہیں جو کسی بھی عورت کی شخصیت سے جدا نہیں کئے جاسکتے ۔ عورت پر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا کرم ہے اور اسی طرح پیدا ہونے والے بچے پر بھی اللہ کی رحمت ہے ۔ اس لئے عورت کا یہ مزاج کسی بھی وقت اس کی شخصیت سے جدا نہیں ہوسکتا ۔ اس کی اپنی شخصیت ہے اور اپنا مزاج ہے بشرطیکہ عورت صحت مند ہو اور اس کی شخصیت کو بگاڑ نہ دیا گیا ہو ۔ جبکہ معاہدات جیسے پیچیدہ معاملات اور ان معاملات میں شہادت دینا ایک ایسا فریضہ ہے ۔ جس میں کسی شخص کا اپنے موقف پر جمارہنے اور کسی بات سے متاثر نہ ہونا ایک ضروری امر ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ گواہ ایک حقیقت سے اچھی طرح واقف ہو اور ثابت قدم ہو ۔ ایسے مواقع پر دو عورتوں کا بیک وقت شہادت دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے ۔ جبکہ وہ بھول اور فطری انفعال کی وجہ سے غلط ہورہی ہو ۔ اس طرح یاد دہانی کے بعد وہ اصلی واقعہ کی طرف لوٹ آئے گی ۔ آغاز آیت میں جس طرح لکھنے والوں کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ لکھنے سے انکار نہ کریں ۔ اب گواہوں سے بھی کہا جاتا ہے کہ جب انہیں شہادت کے لئے بلایاجائے تو وہ شہادت حق دینے سے انکار نہ کریں ۔ گویا شہادت دینا ایک فریضہ ہے ، محض نفل اور غیرلازم کام نہیں ہے ۔ اس لئے کہ احقاق حق اور قیام عدل کا اہم ذریعہ شہادت حق ہے ۔ چونکہ یہہ فریضہ اللہ تعالیٰ نے عائد کیا ہے اس لئے اسلامی نظام عدل میں گواہ اپنی دلی رضا ، شعوری آمادی کے ساتھ شہادت دینے کے لئے آئیں گے اور وہ بغیر کسی نقصان دہی یا ہچکچاہٹ کے شہادت کے لئے آئیں گے ۔ اسی طرح وہ فریقین مقدمہ میں سے کسی پر کوئی احسان بھی نہ کررہے ہوں گے ۔ چاہے وہ ایک فریق کی طرف سے بلائے گئے ہوں یا دونوں کی طرف سے بلائے گئے ہوں۔ یہاں شہادت کی بات ختم ہوجاتی ہے ۔ اس لئے شارع اب ایک دوسرے اہم معاملے کے سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں ۔ یہ ایک عام ہدایت ہے ۔ اس میں تحریر کی تاکید کی گئی ہے ۔ معاملہ چھوٹا ہو بڑا ہو ۔ بعض اوقات ایک انسان یہ بات سوچ کر کہ قرضہ تھوڑا ہے یا معاملے کی اتنی اہمیت زیادہ نہیں ہے ۔ وہ لکھنے میں سستی کرتا ہے ۔ یا بعض اوقات بعض دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان لکھنے میں کوتاہی کرلیتا ہے ۔ مثلاً شرم وحیاء ، سستی اور تن آسانی ، لاپرواہی اور عدم مبالات وغیرہ ۔ چناچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ وجدانی اور عملی وجوہات کی بناپر لکھنے اور تحریر میں لانے کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ ” تساہل نہ کرو “ جب نفس انسانی یہ محسوس کرتا ہے کسی کام کی مشقت اس کی قدر و قیمت سے زیادہ ہے تو اس وقت نفس انسانی متاثر ہوکر وہ کام کرنے سے کتراتا ہے اور قرآن کریم اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہے ۔” یہ طریقہ تمہارے لئے زیادہ مبنی برانصاف ہے ۔ “ اس لئے کہ کسی معاملے میں زبانی شہادت کے مقابلے میں دستاویزی شہادت کی اساس پر زیادہ سہولت کے ساتھ انصاف کیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ زبانی شہادت کا دارومدار صرف حافظہ پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح دومردوں یا دو عورتوں کی شہادت بمقابلہ ایک مرد یا ایک عورت کے زیادہ قوی ہے ۔ اور شکوک و شبہات میں مبتلاہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ۔ اس صورت میں شک کی گنجائش کم سے کم ہوجاتی ہے ۔ یعنی معاہدہ کے اندر مشمولہ بیانات میں شک نہ رہے ۔ یا تمہارے نفوس کے اندر شک نہ رہے یا دوسرے لوگوں کے اندر شک نہ رہے ۔ یہاں شک کو عام رکھا گیا ہے ۔ یعنی کسی پہلو میں بھی شک نہ رہے ۔ یوں ان اقدامات کی حکمت آشکارا ہوجاتی ہے ۔ اور معاملہ کرنے والے مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جو قانون سازی فرمائی ہے وہ نہایت ہی حکیمانہ ہے اور اس کے مقاصد بہت ہی گہرے ہیں اور نہایت ہی عملی ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ معاملات کے اندر صحت ، یقین ، اطمینان اور اعتبار قائم ہو۔ یہ احکام اس قرض کے بارے میں ہیں ، جو معیادی قرض ہو ، رہی وہ تجارت جو ہم روز مرہ کے معمولات کے مطابق کرتے ہیں ، تو روزمرہ کے معاملات میں یہ حکم نہیں ہے کہ انہیں لازماً ضابطہ تحریر میں لایاجائے ۔ اس میں گواہوں کی شہادت ہی کافی ہے ۔ اس لئے کہ ہر کام میں معاہدے اور تحریر کے لازم کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی ۔ اس لئے کہ روزمرہ کی تجارتی سرگرمیاں بڑی تیزی سے اور مختصر وقت صرف کرکے کی جاتی ہیں ۔ اسلام قانون سازی انسانی زندگی کی بہتری کے لئے کرتا ہے۔ وہ انسانی زندگی کے تمام حالات کے پیش نظر رکھ کر قانون بناتا ہے ۔ وہ ایک عملی نظام قانون ہے ، جس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے ۔ نہ اس قانون کی وجہ سے زندگی کی پرسکون رفتار میں کمی آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ بظاہر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عام معاملات تحریر نہ کرنا رخصت ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ کتابت واجب ہے ۔ اور لازمی ہے ۔ بعض روایات میں یہ بھی ذکر ہے کہ ہر معاملے کی کتابت مستحسن ہے ۔ لازمی نہیں ہے ۔ لیکن راحج بات یہ ہے کہ کتابت معاملات لازمی ہے ۔ یہاں تک تو قانون سازی تھی اس قرضے کی بابت جس کی میعاد متعین ہو ، یا وہ تجارت جس کا تعلق روز مرہ لین دین سے ہو ، اور دونوں میں کتابت اور شہادت کو ضروری قراردیا گیا ہو ، لازماً یا بطور استحباب یہاں سے آگے اب کاتبوں اور گواہوں کے حقوق کا تعین کیا جاتا ہے۔ نیز ان کے فرائض کا بھی تعین کردیا جاتا ہے ۔ ان پر پہلا فریضہ یہ عائد ہوتا کہ سچائی اور لوگوں کے حقوق میں توازن پیدا ہو اور یہ لوگ بسہولت اپنے سوشل فرائض سر انجام دے سکیں ۔ بلاخوف وخطر ........ فرماتے ہیں۔ کسی لکھنے والے یا کسی گواہی دینے والے کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے ۔ محض اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ، اس پر عائد کردہ فریضہ ادا کررہا ہے ۔ اگر تم ایسا کروگے تو یہ تمہاری جانب سے اللہ کے قانون کے خلاف بغاوت ہوگی اور اسلامی طریقہ حیات کی مخالفت ہوگی ۔ لہٰذا اسلامی ریاست کو چاہئے کہ وہ یہ تحفظ لازماً فراہم کرے ۔ کیونکہ کاتبین اور شاہد اکثر اوقات مقدمہ کے فریقین میں سے کسی ایک کے غیض وغضب کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے انہیں ایسے تحفظات اور ایسی ضمانتیں حاصل ہونی چاہئیں جن کی وجہ سے وہ مطمئن ہو کر اپنا فرض ادا کرسکیں ۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے اچھی طرح عہدہ برآ ہوسکیں اور شرح صدر کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں چاہے حالات کیسے ہی ہوں ۔ قرآن کریم کی یہ عادت ہے کہ وہ ہر وقت انسان کے ضمیر کا جگاتا رہے ، انسان کے دل میں یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار شخصیت ہے ۔ تاکہ اطاعت قانون کا جذبہ خود نفس انسانی کے اندر سے پیدا ہو ، اسلام صرف دفعات قانون کے دباؤ پر اکتفاء نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اہل ایمان کو خدا خوفی کی دعوت دیتا ہے ۔ اور یہ بات تقریباً ہر مضمون کے خاتمہ پر کی جاتی ہے ۔ قرآن کریم اہل ایمان کو یاد دلاتا ہے کہ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تم پر اپنا فضل وکرم کیا ۔ وہی ہے جو تمہیں تعلیم دیتا ہے ۔ اور تمہاری راہ نمائی کرتا ہے ۔ اللہ خوفی سے ان کے دلوں کے دروازے معرفت الٰہیہ کے لئے کھل جاتے ہیں۔ ان کی روح علم حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہوتی ہے ۔ اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہے کہ وہ اللہ کے اس کے فضل وکرم کا شکرانہ ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں ۔ اس سے راضی ہوں ، اور اس کی ذات پر مکمل بھروسہ کریں۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ” اللہ کے غضب سے بچو ، وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ۔ “ اس کے بعد شارع قرضے کے احکام کی تکمیلی دفعات بیان کرتا ہے ۔ یہ احکام ذرا مؤخر اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ ان کا تعلق عام حالات سے نہیں ہے ۔ بلکہ بعض خاص حالات سے ان کا تعلق ہے ۔ مثلاً فریقین معاہدہ اگر سفر میں ہوں اور انہیں ایسا شخص نہ مل رہا ہو جو تحریر تیار کرے تو اللہ تعالیٰ نے بغیر تحریر کے زبانی معاہدہ کرنے کی بھی اجازت دے دی بشرطیکہ قبضہ موقعہ پر ہی دے دیا گیا ہو یعنی اس چیز کا قبضہ جو مقروض نے قرض خواہ کو بطور گارنٹی دینا ہو ۔ فرماتے ہیں۔
Top