Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anbiyaa : 47
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ
وَنَضَعُ : اور ہم رکھیں گے (قائم کرینگے) الْمَوَازِيْنَ : ترازو۔ میزان الْقِسْطَ : انصاف لِيَوْمِ : دن الْقِيٰمَةِ : قیامت فَلَا تُظْلَمُ : تو نہ ظلم کیا جائے گا نَفْسٌ : کسی شخص پر شَيْئًا : کچھ بھی وَ اِنْ : اور اگر كَانَ : ہوگا مِثْقَالَ : وزان۔ برابر حَبَّةٍ : ایک دانہ مِّنْ خَرْدَلٍ : رائی سے۔ کا اَتَيْنَا بِهَا : ہم اسے لے آئیں گے وَكَفٰى : اور کافی بِنَا : ہم حٰسِبِيْنَ : حساب لینے والے
قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ‘ پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں “۔
ونضع الموازین۔۔۔۔۔۔ حسبین (74) ” رائی کے دانے سیمراد چھوٹی سے چھوٹی چیز ہے جو ترازو میں بہت ہی ہلکی ہو۔ یوم حساب میں اسے بھی نظر انداز نہ کیا جاسکے گا اور اس قدر حساس میزان ہوگا کہ حبہ خرولی سے بھی ترازو اوپر نیچے ہوگا۔ لہٰذا ہر نپس کو کل کے لیے زیادہ سے زیادہ بچت کرنا چاہیے۔ دلوں کو چاہیے کہ وہ ڈرانے والے کی طرف کان لگا کر سنیں۔ غافلوں ‘ منہ موڑنے والوں اور مذاق کرنے والوں کو چاہیے کہ اس سے پہلے سنبھل جائیں کہ دنیا کے عذاب کا کوئی جھونکا انہیں آلے یا آخرت کے عذاب کا کوئی کوڑا ان کی پشت پر چسپاں ہوچکا ہو۔ اگر دنیا کے عذاب سے وہ بچ بھی جائیں تو عذاب آخرت تو ان کے لیے تیار ہے جسکے میزان میں کوئی ظلم نہ ہوگا ‘ رائی کے دانے کے برابر بھی۔ اس طرح آخرت کی نہایت ہی حساس میزان کو اس کائنات کے نہایت ہی حساس قوانین فطرت کیساتھ ہم آہنگ کردیا گیا ہے اسی طرح دعوت کے احوال اور انسانوں کی فطرت کو باہم مربوط کردیا گیا ہے اور ان سب امور کو دست قدرت کی تصرفات قرار دے کر ان سے ادارہ واحد ثابت کیا جو اس کائنات کی پشت پر کام کرتا ہے اور یہی دلیل ہے عقیدہ توحید پر۔
Top