Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 19
هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ١٘ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُۚ
ھٰذٰنِ : یہ دو خَصْمٰنِ : دو فریق اخْتَصَمُوْا : وہ جھگرے فِيْ رَبِّهِمْ : اپنے رب (کے بارے) میں فَالَّذِيْنَ : پس وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا قُطِّعَتْ : قطع کیے گئے لَهُمْ : ان کے لیے ثِيَابٌ : کپڑے مِّنْ نَّارٍ : آگ کے يُصَبُّ : ڈالا جائے گا مِنْ فَوْقِ : اوپر رُءُوْسِهِمُ : ان کے سر (جمع) الْحَمِيْمُ : کھولتا ہوا پانی
یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھڑا ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں ، ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا
ھذن خصمن ……فیھا حریر (23) یہ ایک عجیب ، خوفناک اور چیخ و پکار سے بھرپر منظر ہے۔ حرکت سے بھرپور ۔ قرآن کریم کا بہترین طرز تعبیر ذہن کے اندر یہ طویل تخیلاتی منظر اس طرح پیدا کردیتا ہے کہ اسکرین پر واضح نظر آتا ہے۔ یہ منظر بار بار دامن خیال کو پکڑتا ہے اور خیال اس سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔ آگ کے لباس کاٹے جا رہے ہیں ، جدا جدا ہر شخص کے لئے۔ دوزخیوں کے سروں پر سخت گرم پانی ڈالا جا رہا ہے۔ پانی ڈالتے ہی ان کے چمڑے بلکہ جسم کے اندر کے حصے بھی گل سڑ جاتے ہیں۔ لوہے کے کوڑے ہیں اور آگ میں گرم ہو رہے ہیں ۔ عذاب سخت سے سخت ہو رہا ہے۔ حد برداشت سے بڑھ جاتا ہے ۔ لوگ گھبرا رہے ہیں ، ، دوڑتے ہیں اور جہنم سے نکلنے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں لیکن سختی سے ان کو پھر اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔ سختی سے ان کو ملامت کی جاتی ہے۔ وذوقوا عذاب الحریق (22 : 22) ” چکھو جلنے کا مزہ “۔ ان تمام مناظر کو خیال بار بار دہراتا ہے۔ یہاں تک کہ بھاگنے کی کوشش اور سختی کے ساتھ وہ لوگوں کا جہنم میں وبال کردیا جانا ، یہی خیال ذہن میں دوڑتا ہے کہ اچانک ایک دوسرا منظر آجاتا ہے ، وہ ہے دو رفیقوں میں سے دوسرے فریق کا منظر۔ ایک فریق کی حالت تو ابھی دیکھ چکے۔ اب اسکرین پر اہل جنت کا نقشہ آتا ہے۔ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ان کے لباس آگ سے نہیں بلکہ ریشم سے سئے جا رہے ہیں۔ اس لباس کے ساتھ ساتھ ان کے جسم کو خوبصورت بنانے کے لئے زیورات بھی ہیں۔ سوین کے اور موتیوں کے۔ پھر لباس پر لباس اور وہ شیریں کلام ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے صراط مستقیم پر ہیں۔ نہ ان کی بات سخت ہے اور نہ ان کی راہ پر مشقت ہے۔ گویا شیریں کلامی اور حق گوئی اور راہ ربست پر ہونا جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یہ اطمینان ، یسر اور توفیق ربانی کی نعمت ہے۔
Top