Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
” یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خد اسی کے لئے بہتر ہے اور تمہارے لئے مویشی جانور حلال کئے گئے ، ماسوا ان چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں۔ پس بتوں کی گندگی سے بچو ، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو
ذلک ومن ……مکان سحیق (31) اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ یہ اللہ کی ہاں بہت بڑی نیکی اور خیر ہے۔ انسانی شعور اور انسانیضمیر کی دنیا میں بھی خیر کثیر ہے۔ واقعی اور عملی زندگی میں بھی یہ خبر ہے ، کیونکہ جو ضمیر حرمتوں کا شعور رکھتے ہوئے بچنے کی کوشش کرے گا وہی پاک ہوگا۔ جس زندگی میں اللہ کی حرمتوں کا احترام ہوگا۔ وہی زندگی امن وامان اور سلامتی کی نعمت سے مالا مال ہو سکتی ہے اور اس میں کسی پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہو سکتی۔ ایسی ہی زندگی میں امن کے مقامات اور اطمینان کے گھر مل سکتے ہیں۔ مشرکین بھی بعض جانوروں کا احترام کرتے تھے۔ مثلاً بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔ ان کے نزدیک یہ جانور محترم تھے اور ان کو ہاتھ لگانا بھی جرم تھا۔ لیکن یہ مشرکین کی خود ساختہ حرمتیں تھیں۔ اللہ کی طرف سے ان کے بارے میں کوئی حکم نہ تھا تو یہاں کہہ دیا کہ اللہ نے کھانے کے جانوروں میں سے جو حرام قرار دیتے ہیں ان کا ذکر ہو چا ہے مثلاً مردار ، خون ، خنزیر اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کی نذر ہو۔ واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم (22 : 30) ” تمہارے لئے مویشی حلال کئے گئے ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں۔ “ یہ اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی مقرر کردہ کوئی حرمت نہ ہو۔ اللہ کے سوا کسی کو حلال و حرام قرار دینے کی اجازت نہیں اور اللہ کی شریعت کے سوا کسی اور شریعت کے مطابق احکام جاری نہ ہوں۔ حلت اور حرمت کی بحث ہی کی مناسبت سے بتوں کی گندگی سے بچنے کی بھی تاکید کردی گئی۔ مشرکین بتوں پر جانور ذبح کرتے تھے حالانکہ یہ ناپاکی تھی۔ رجس اس ناپاکی کو کہتے ہیں جس کا تعلق انسان کے نفس ، ضمیر اور دماغ سے ہو ، شرک اسی قسم کی معنوی ناپاکی ہے۔ شرک قلب و ضمیر کو اسی طرح ناپاک کر دیات ہے جس طرح گندگی کپڑے کو ناپاک کردیتی ہے۔ پھر شرک اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور سفید جھوٹ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اس بڑے جھوٹ کے ساتھ ساتھ تمام جھوٹوں سے بچو۔ فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور (22 : 30) ” بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔ “ قرآن مجید نے جھوٹ کو شرک کے ساتھ جوڑ کر اس کے گناہ کو اور بھیانک بنا دیا ہے۔ امام احمد روایت کرتے ہیں کہ قاتک اسدی نے حضور ت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نما زپڑھی اور منہ پھیر کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔ عدلت شھادۃ الزور الا شراک باللہ عزوجل ” اور جھوٹی شہادت کو شرک کے برابر کردیا گیا ہے۔ “ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی خواہش یہ ہے کہ لوگ ہر قسم کے شرک کو چھوڑ دیں اور ہر قسم کے جھٹ کو چھوڑدیں اور خلاص عقیدہ توحیدہ پر جم جائیں۔ حنفآء اللہ غیر مشرکین بہ (22 : 31) ” یکسو ہو کر اللہ کے بندے ہو جائو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ “ اس کے بعد آیت میں ایک خوفناک منظر ایک مثال کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جو شخص توحید کے بلند افق سے گرا تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ شرک کی پستیوں میں جا گرتا ہے اور وہ اس طرح ختم ہوجاتا ہے کہ اس کا نام و نشان ہی نہیں رہتا۔ گویا وہ تھا ہی نہیں۔ ومن یشرک باللہ فکانما خرمن السمآء فتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق (22 : 31) ” اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اسے ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ “ یہ منظر ایسے شخص کا ہے جو بہت ہی بلند جگہ سے گر جائے جیسا کہ آسمان سے گر کر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا اسے نظروں سے دور پھینک دے۔ یا ہوا اسے ایسی جگہ پھینک دے ایسے گڑھے میں جہاں اسے کوئی قرار نصیب نہ ہو۔ یعنی اس منظر میں تمام مراحل بڑی تیزی سے سرانجام پاتے ہیں۔ سخت تیزی اور پھر اقدامات لگاتار ہیں اور ہر مرحلے کے … کا استعمال ہے۔ جو ترتیب واقعات بغیر فاصلہ وقت پر دلالت کرتی ہے یعنی یہ شخص بڑی تیزی سے منظر سے غائب ہوتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے تصویر کشی کا۔ پھر جس طرح قرآن کریم نے شرک کرنے والے کی تصویر کشی کی ہے فی الواقعہ بھی اس کی حالت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ توحید اور ایمان کے بلند مقام سے گر جاتا ہے اور اس کی شخصیت منتشر ہوجاتی ہے کیونکہ اس کیپ اس وہ مضبوط اساس یعنی عقیدہ توحید ہی نہ رہا جس پر وہ کھڑا ہو سکے۔ اب اس کے لئے کوئی جائے قرار ہی باقی نہیں ہے۔ پرندے اس کو اچک لیں گے یعنی خواہشات نفسانیہ اور ادہام و خرافات ہر طرف سے اسے اپنی طرف کھینچیں گے۔ چونکہ اس کے ہاتھ میں مضبوط رسی نہ ہوگی اس لئے وہ ہر طرف کھینچتا چلا جائے گا۔ کبھی ایک طرف گرے گا اور کبھی دوسری طرف کیونکہ اسکے پائوں کے نیچے مضبوط بنیاد نہ ہوگی۔ اب بات آگے بڑھتی ہے۔ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی حرمتوں کا احترام کرو اور ان سے تعرض نہ کرو۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے شعائر کی تعظیم کر ، شعائر لالہ کیا ہیں۔ وہ جانور جو حج کے موقع پر ذبح ہوں گے ، ان کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ موٹے تازے ہوں اور قیمتی ہوں۔
Top