Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 55
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ
وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ رہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا فِيْ : میں مِرْيَةٍ : شک مِّنْهُ : اس سے حَتّٰى : یہاں تک تَاْتِيَهُمُ : آئے ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک اَوْ يَاْتِيَهُمْ : یا آجائے ان پر عَذَابُ : عذاب يَوْمٍ عَقِيْمٍ : منحوس دن
” انکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائے ، یا ایک منحوس دن کا عذاب نازل ہو جائے
ولا یزال ……مھین (65) یہ ان لوگوں کا انجام ہے جو اس قرآن کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس مضمون کا ذکر اس تصریح کے بعد کیا ہے کہ انبیاء و رسل دعوت کے سلسلے میں نہایت شوق اور تمنا رکھتے ہیں اور شیطان ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا ہے کیونکہ لوگ جن کے بارے میں انبیاء تمنا کرتے ہیں ، ان کے دلوں میں شک رہتا ہے اس لئے کہ ان کے دلوں کے اندر دعوت اسلامی اچھی طرح بیٹھ نہیں سکی۔ یہ اسی طرح شک میں رہیں گے یہاں تک کہ اچانک قیامت آجائے یا ان پر کوئی منحوس دن آجائے۔ یعنی قیامت کے بعد کا عذاب قیامت کے دن کے لئے یوم عظیم استعمال ہوا ، کیونکہ اس کے بعد کوئی دوسرا دن نہ ہوگا۔ اس دن میں تمام اختیارات اللہ وحدہ کے پاس ہوں گے یہاں کسی کی بادشاہت نہ ہوگی۔ دنیا کی ظاہری بادشاہت بھی کسی کے پاس نہ ہوگی۔ صرف اللہ کا حکم چلے گا۔ اس دن تمام لوگوں کے فیصلے ان کی مقررہ جزاء عمل کے مطابق اللہ کرے گا۔ فالذین امنوا و عملوا الصلحت فی جنت النعیم (22 : 65) ” جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے وہ جنات نعیم (نعمتوں والی جنتوں) میں ہوں گے۔ “ والذین کفروا و کذبوا بایتنا فائولئک لھم عذاب مھین (22 : 85) ” اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہوگا ، ان کے لئے رسوا کن عذاب ہوگا۔ “
Top