Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
” یہ تو ہے ان کا انجام اور جو کوئی بدلہ لے ، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا ، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو ، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ “
ذلک ……غفور (06) اس نصرت کی شرط یہ ہے کہ سزا بطور قصاص دی گئی ہو ، اس میں زیادتی نہ ہو اور نہ ہی سرکشی کر کے سزا کو ظلم سے بدل دیا گیا ہو۔ سزا میں غلونہ کیا گیا ہو۔ اس سزا کے جواز کے بعد یہ جملہ آیا ہے کہ اللہ غفور و رحیم ہے۔ اللہ ہر جرم کو معاف بھی کرسکتا ہے لیکن انسانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ بعض اوقات کسی قیمت پر جرم کو معاف نہیں کرتے اور قصاص اور سزا کے نفاذ کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اللہ نے ان کو یہ حق دیا ہے۔ معاف نہ کرنا انسان کی بشری کمزوری ہے۔ ایک شخص پر ظلم ہو ، وہ اس کے بدلے متوازن قصاص لے ، لیکن ظالم اگر پھر ظلم پر اتر آئے تو اللہ کی نصرت کا وعدہ اس شخص کے ساتھ ہے جس نے قصاص لیا۔ ظالم اور باغی کے ساتھ نہیں ہے لیکن اس وعدے کو اللہ تعالیٰ اس کائنات کے تکوینی نوامیس قدرت کے ساتھ مربوط کرتے ہیں ، یہ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ کائناتی قوانین قدرت اس بات پر گواہ ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور وہ نصرت کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح یہ قوانین قدرت اٹل ہیں اور نہایت باریکی سے اپنے فرائض کو پورا کر رہے ہیں اسی طرح اللہ کی نصرت بھی ایک کائناتی حقیقت ہے۔ اس میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسا نہ ہو۔
Top