Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 66
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ١٘ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَحْيَاكُمْ : زندہ کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يُمِيْتُكُمْ : مارے گا تمہیں ثُمَّ : پھر يُحْيِيْكُمْ : زندہ کرے گا تمہیں اِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ : بڑا ناشکرا
” وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے ، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکر حق ہے۔ “
وھو ……لکفور (66) انسان کے ڈھانچے میں زندگی ڈالنا یعنی پہلے انسان ڈھانچے میں تو ایک عظیم معجزہ ہے ، اور رات اور دن جن چیزوں میں اللہ تعالیٰ زندگی ڈالتا ہے اس سے اس معجزے کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔ یہ ” حیات “ کیا چیز ہے۔ ابھی تک یہ امور غبیبہ سے ہے اور عقل اس کے بارے میں حیراں ہے۔ اس میں بہرحال تامل و تدبر اور سائنسی تحقیق کے لئے بڑی گنجائش ہے۔ پھر موت بھی ایک دوسرا معجزہ ہے کہ انسان اس کی حقیقت سے آج تک عاجز ہے۔ موت نہایت ہی مختصر ٹائم میں واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن زندگی اور موت کے آثار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انسان کے لئی اس میں غور و فکر کے وسیع امکانات ہیں۔ اب تیسرا مرحلہ کہ موت کے بعد زنگدی کیسے ہوگی۔ یہ بھی اللہ کے پوشیدہ علوم میں سے ایک غیب ہے۔ لیکن اس پر دلیل بہت آسان ہے کہ جب ایک چیز کو پہلے پیدا کردیا گیا ، تو دوسری بار اس کی پیدائش میں کیا مشکلات ہو سکتی ہیں۔ اس میں بھیانسان غو رو فکر کرسکتا ہے۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ وہ غور و فکر ان موضوعات پر نہیں کرتا اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ ان الانسان لکفور (22 : 66) ” بیشک انسان ناشکرا ہے۔ “ بڑا منکر حق ہے۔ قرآن مجید نے یہ تمام دلائل اس موضوع کے گرد پیش کئے ہیں کہ جن لوگوں پر ظلم ہوگا ، اللہ ان کی مدد رکے گا اور لوگوں کو چاہئے کہ وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کا جواب دیں۔ یہ طرز استدلال قرآن کریم کے اس اسلوب کے مطابق ہے کہ قرآن اس کائنات کے قوانین فطرت اور مظاہر قدرت کو دلوں میں ولولہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے کیونکہ نظام اسلامی کے اندر موجود قوانین عدل کو پوری کائنات کے اندر موجود قوانین فطرت کی تائید حاصل ہے۔ …… اس کائنات کے مظاہر فطرت اور قوانین قدرت کے بیان کے اس فیصلہ کن موڑ پر پہنچ کر اب قرآن مجید نبی ﷺ کو ہدایت کرتا ہے کہ آپ مشرکین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی راہ پر چلیں۔ مشرکین کے نزاع اور جدال کی پرواہ نہ کریں۔ اللہ مشرکین کو یہ طاقت نہیں دیتا کہ وہ آپ کو اپنی راہ سے روک سکیں۔ یہ راہ آپ کے لئے اللہ نے چنی ہے اور اس راہ میں آپ صرف دعوت ہپنچانے تک محدود رہیں۔ اصل فیصلہ تو اللہ خود قیامت میں کرے گا۔
Top