Fi-Zilal-al-Quran - Al-Muminoon : 102
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَمَنْ : پس جو۔ جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئی مَوَازِيْنُهٗ : اس کا تول (پلہ) فَاُولٰٓئِكَ : پس وہ لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے
فمن ثقلت۔۔۔۔۔۔ کلحون (102 : 104) یہ کہ تمام اعمال کو ترازو میں تولا جائے گا ‘ یہ بھی قرآن مجید کا ایک مخصوص انداز کلام ہے کہ وہ کسی بھی مفہوم کو حسی انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ نہایت ہی مجرد معانی کو ہر شخص سمجھ جائے۔ نیز ان اعمال کے ساتھ ذرادیکھئے کہ ان کے چہروں پر سے آگ گوشت کو چاٹ جائے گی اور وہ اس طرح نظر آرہے ہو نگے جس طرح کسی مردے کے منہ کی ہڈیاں نظر آتی ہیں ‘ دانت نکلے ہوئے۔ یہ لوگ ہیں جن کا میزان اعمال ہلکا ہوگیا ہے۔ یہ ہار گئے ہیں سب کچھ ‘ اپنے نفسوں کو بھی ہار گئے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنی جان ہی ہار جائے تو پھر وہ کس چیز کا مالک رہ جاتا ہے۔ اس کی ملکیت میں کیا چیز رہ جاتی ہے۔ وہ اپنے نفس کو ہار گیا۔ اس کی ذات چلی گئی ہے۔ گویا اس کا وجود ہی باقی نہیں رہا۔ اب حکایتی انداز کلام اچانک بدل جاتا ہے اور خطاب شروع ہوجاتا ہے۔ ان کی سرزنش کی جاتی ہے۔ جسمانی عذاب اس قدر درد ناک نہیں جس قدر یہ سرزنش اذیت ناک ہے۔ اب گویا ہم پھر ایک منظر میں دیکھ رہے ہیں کہ ان کی سرزنش کی جارہی ہے اور ان کو ملامت کی جارہی ہے۔
Top