Fi-Zilal-al-Quran - Al-Muminoon : 75
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر رَحِمْنٰهُمْ : ہم ان پر رحم کریں وَكَشَفْنَا : اور ہم دور کردیں مَا بِهِمْ : جو ان پر مِّنْ ضُرٍّ : جو تکلیف لَّلَجُّوْا : ارے رہیں فِيْ : میں۔ پر طُغْيَانِهِمْ : اپنی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بھٹکتے رہیں
اگر ہم ان پر رحم کریں اور تکلیف جس میں آج کل یہ مبتلا ہیں ، دور کردیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے
ولو رحمنہم مبلسون (آیت نمبر 75 تا 77) ” ۔ ۔ “۔ یہ ہے بعض لوگوں کا مستقبل رویہ۔ یہ سخت دل لوگ ہوتے ہیں ۔ اللہ سے غافل ہوتے ہیں ، آخرت کی تکذیب کرتے ہیں ۔ مشرکین مکہ اسیے ہی لوگوں سے تھے جن سے حضور اکرم ﷺ کو سابقہ تھا۔ اگر کسی پر مصیبت آجائے اور وہ اللہ کے سامنے عاجزی اور تضرع کرنے لگے تو یہ رجوع الی اللہ کی دلیل ہوتا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے دل میں خدا کا شعور ہے اور یہ تصور بھی ہے کہ آخری سارا اللہ ہے۔ جو دل اس طرح اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ نرم ہوتا ہے ، بیدار ہوتا ہے اور نصیحت اس کو فائدہ دیتی ہے ۔ یہ احساس انسان کو غفلت اور لغزش سے بچاتا ہے ۔ اسیے ہی لوگ مصائب اور مشکلات سے فائدہ اور نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن جب کو ئی اپنی گمراہی اور سرکشی میں بہت آگے چلا جائے اور اندھا ہوجائے تو اس شخص سے مایوس ہوجا نا چاہیے ۔ اس کی اصلاح کی پھر کوئی امید نہیں رہتی۔ اسے چھوڑ دیا جائے کہ وہ عذاب آخرت کا شکار ہو اور یہ آخرت بہت ہی اچانک ہوگی۔ اچانک ہر کسی کے سامنے آجائے گی اور تمام لوگ اس وقت حیران و پریشان ہوں گے اور اس بات سے مایوس ہوں گے کہ اب ہر کوئی خلاصی ممکن ہے۔ ایک بار پھر ان کے شعور اور وجدان کو جگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ النفس و آفاق میں دلائل ایمان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے امور کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو پیش یا افتادہ ہیں۔
Top