Fi-Zilal-al-Quran - Al-Muminoon : 81
بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ
بَلْ قَالُوْا : بلکہ انہوں نے کہا مِثْلَ : جیسے مَا قَالَ : جو کہا الْاَوَّلُوْنَ : پہلوں نے
مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پیش رو کہ چکے ہیں
اب ان کے ساتھ سلسلہ کلام ختم کرکے اس پر ایک مثبت تبصرہ کیا جاتا ہے کہ بعث بعد الموت اور حساب و کتاب کے بارے میں ان لوگوں کے جو اقوال ہیں ایسے ہی مقولات سابقہ لوگوں کے بھی رہے ہیں ۔ بل قالو مثل اساطیر الا ولین (آیت نمبر 81 تا 82) بادی النظر میں یہ بات نہایت مکروہ ہے ، اس لیے کہ ان آیات بینات اور ان دلائل اور دلائل کائنات کے باوجود لوگ جو ایسی باتیں کرتے ہیں وہ مکروہ باتیں ہیں۔ خود انسانی قوتیں ، انسان کی قوت سماعت ، اس کی قوت بینائی اور اس کی قوت غور و فکر اسے اس لیے دی گئی ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار اور مسئول ہستی ہے ۔ وہ اپنے اعمال و افکار کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ اگر وہ اچھے کام کرے گا تو اس کی جزاء کا مستحق ہوگا اور اگر برے کام کرے گا تو سزا کا مستحق ہوگا۔ دنیا میں صاف نظر آتا ہے کہ بعض اوقات انسان کو وہ جزاء ملتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ سزا نہیں ملتی جس کا وہ سزا وار ہوتا ہے لہذا آخرت کا برپا ہونا عقلاً بھی لابدی ہے ۔ اللہ ہر وقت مارتا بھی رہتا ہے اور زندگی بھی عطا کرتا رہتا ہے ۔ اللہ کے لیے کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ کس طرح اٹھائے گا جبکہ اللہ ہر وقت مختلف چیزوں کو حیات دیتا رہتا ہے اور زندگی کا سیل رواں اس زمین پر جاری ہے۔ رہے اہل کفر تو نہ صرف یہ کہ ان کے قوائے مدرکہ بعث بعد الموت کا ادراک نہیں کرسکے اور اس میں پائے جانے والی اللہ کی حکمت کو سمجھ نہیں سکے بلکہ وہ اس عقیدے کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد کو بھی قیام سے ڈریا جاتا رہے ہے لیکن ابھی تک تو یہ قیامت آئی نہیں ہے۔
Top