Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن عورتیں ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا : پھر وہ نہ لائیں بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاجْلِدُوْهُمْ : تو تم انہیں کوڑے مارو ثَمٰنِيْنَ : اسی جَلْدَةً : کوڑے وَّلَا تَقْبَلُوْا : اور تم نہ قبول کرو لَهُمْ : ان کی شَهَادَةً : گواہی اَبَدًا : کبھی وَاُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
” اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ‘ پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ‘ ان کو اسی (80) کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو ‘ اور وہ خود ہی فاسق ہیں
(والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم الفسقون ) (4 زبانوں کو کھلا چھوڑ دینا کہ وہ پاک و صاف عورتوں (محصنات) پر تہمتیں لگاتے پھریں۔ محسنات وہ کنواری اور شادی شدہ عورتیں ہوتی ہیں جن پر زنا کے جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے لیکن اس الزام کی پشت پر کوئی دلیل قاطع نہ ہو۔ اس طرح کہ بغیر کسی ثبوت کے کوئی کسی بےگناہ مرد یا عورت پر اس گھٹائو نے جرم کا الزام لگاتا پھرے اور اس پر اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ یوں صبح و شام معاشرے میں لوگوں کی عزتوں پر حملہ ہوتا رہے ‘ معاشرہ بد نام ہوتا رہے اور ہر شخص پر الزام لگنے کے مواقع عام ہوں۔ یا مرد اپنی بیوی پر شک کرے۔ ہر شخص کو اپنے اصل و نسل کے بارے میں شک ہوجائے۔ ہر خاندان کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہو۔ تہمت ‘ الزام اور شک کے یہ وہ حالات ہوں گے جن میں کسی شخص کو کوئی اطمینان نہ ہوگا۔ پھر اگر زنا کاری کے الزامات اس طرح لگائے جاتے رہیں تو عام لوگوں کو اس جرم کے ارتکاب کی جرأت ہوگی۔ لوگ کہیں گے کہ سوسائٹی میں ہر طرف اس جرم کا چر چاہے۔ اس طرح جو شخص اس سے بچنا بھی چاہتا ہوگا ‘ وہ بھی اس میں ملوث ہوجائے گا۔ کمازکم بار بار کے الزامات کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا ارتکاب اس قدر گھنائو نا نہ رہے گا۔ ایک عام آدمی کا تاثر بھی یہ ہوگا کہ عام لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اگر الزام زنا بلاثبوت کو جرم نہ قرار دیا جائے تو پھر زنا کی اس شدید سزا کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا اور پوری سوسائٹی کی فضا اس جرم میں ملوث ہوگی اور فحاشی کے ارتکاب میں اضافہ ہوگا۔ ان وجوہات کی بناء پر ‘ لوگوں کو ناجائز تہمتوں سے بچانے کی خاطر ‘ اور اس الزام کی وجہ سے لوگوں کی عزت کو بچانے کی خاطر قرآن کریم نے حد قذف کی سزا میں سختی کی ہے۔ اس قدر سختی کہ اس کی سزا کو ارتکاب جرم کی سزا کے قریب قریب قرار دیا ہے۔ یعنی 80 کوڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ایسا شخص فاسق قرار پائے گا اور آئندہ کبھی بھی اس کی شہادت قبول نہ ہوگی۔ پہلی سزا یعنی 80 کوڑے تو جسمانی سزا ہے اور دوسری سزا تادینی سزا ہے کہ سوسائٹی کے اندر زنا کا الزام لگانے والے کی بات بےوقعت ہوجائے کہ آئندہ اس کی کسی بات پر کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ تیسری سزا دینی سزا بھی ہے کہ وہ اسلام کی سیدھی راہ سے پھر گیا ہے الا یہ کہ وہ چار گواہ لائے یا تین گواہ اپنے ساتھ لائے اگر اس نے خود دیکھاہو۔ اس وقت اس کی بات درست سمجھی جائے گی اور ملزم پر پھر حد زنا نافذ ہوگی۔ جہاں تک اسلامی سوسائٹی کی ترجیحات کا تعلق ہے اگر اس میں ایسے الزام کو دبا دیا جائے جس کی پشت پر کوئی ثبوت نہ ہو ‘ تو اس صورت میں کوئی نقصان نہ ہوگا جس طرح کا نقصان اس صورت میں ہوگا کہ فحاشی کا چرچا ہوجائے اور اس پر کوئی ثبوت نہ ہو۔ کیونکہ اس صورت میں کئی لوگ اس گندے جرم کے ارتکاب پر آمادہ ہو سکتے ہیں ‘ جبکہ عام طور پر وہ اس سے بچتے تھے ‘ اور وہ یہ سمھجتے تھے کہ یہ نہایت ہی ممنوع فعل ہے اور اس کا ارتکاب نادرست ہے رہی یہ بات کہ پاک دامن عورتوں پر اس الزام کی وجہ سے کیا گزرتی ہے اور اس سے معاشرے کے اندر جو بےاطمینانی پھیلتی ہے اور جس طرح گھرانے تباہ ہوتے ہیں یہ ایک عام بات ہے اور اسے ہر شریف آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے۔ غرض الزام لگانے والے (قاذف) کے سر پر سڑائوں کی تلوار ہر وقت سونتی رہتی ہے۔ الا یہ کہ :
Top