Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
وَقَالَ : اور کہے گا الرَّسُوْلُ : رسول يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِي : میری قوم اتَّخَذُوْا : ٹھہرا لیا انہوں نے ھٰذَا الْقُرْاٰنَ : اس قرآن کو مَهْجُوْرًا : متروک (چھوڑنے کے قابل)
اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ‘ میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تصحیک بنا لیا تھا
(وقال الرسول۔۔۔۔۔۔۔ واضل سیلا) ” انہوں نے اس قرآن کو چھوڑ دیا جو اللہ نے اپنے بندے پر نازل کیا تھا تاکہ ان کو ڈرائے۔ اور ان کو بصیرت عطا کرے۔ انہوں نے قرآن کو اس طرح چھوڑا کہ اسے سننے سے بھی دور بھاگے ‘ مارے اس خوف کے کہ اگر انہوں نے سن لیا تو وہ اپنی بےپناہ تاثیر سے ان کو متاثر کرے گا۔ اور وہ اس وے اثرات کو مسترد نہ کرسکیں گے۔ انہوں نے اگر سنا بھی تو اس کے مضامین پر غور و فکر نہ کیا تاکہ وہ سچائی کو پا سکیں اور اس کی راہ پر چلیں۔ انہوں نے اسے اس طرح چھوڑا کہ اسے اپنا دستور حیات نہ بنایا۔ حالانکہ وہ نازل اسی لیے کیا گیا تھا کہ وہ اسے نظام حیات بتائیں۔ (وقال الرسول یرب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مھجورا) (25 : 30) ” اور رسول کہے گا اے میرے رب ‘ میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا “۔ اور رب تعالیٰ تو جانتا تھا کہ ایسا ہوا ہے لیکن یہ فریاد اور انابت الی اللہ کے طور پر دعا ہے اور اللہ کو بھی معلوم ہے اور اللہ اس کی شہادت دے رہا ہے کہ رسول ﷺ نے اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے لیکن یہ قوم کا قصور ہے کہ اس نے اس قرآن کو نہ سنا اور نہ اس پر غور کیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ یہ تو تمام نبیوں کو پیش آنے والا ایک عام طرز عمل ہے۔ یہ سنت جاریہ ہے اور تمام رسولوں نے ایسی ہی صورت حالات کا مقابلہ کیا۔ تمام انبیاء کو ایسے حالات پیش آئے کہ ان کی اقوام نے قرآن کریم اور ان کی دعوت کے ساتھ مذاق کیا اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا لیکن اللہ کی مدد اپنے رسولوں کے ساتھ شامل رہی اور اللہ نے اپنے رسولوں کو ایسے راستے بتائے کہ وہ اپنے دشمنوں پر غاب ہو کر رہے۔ (وکذلک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ونصیرا) (25 : 31) ” اے نبی ؐ‘ ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا شمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کے لیے کافی ہے “۔ اللہ کی حکمت اچھے انجام تک پہنچنے والی ہے۔ کسی اسلامی تحریک کے مقابلے میں جب مجرم اٹھ کھڑے ہوں اور مخالفت پر کمربستہ ہوجائیں تو اس سے تحریک کے اندر قوت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس طرح تحریک سنجیدہ ہوجاتی ہے۔ ایک سچی دعوت اور جھوٹی دعوت کے درمیان فرق ہی یہ ہوتا ہے کہ سچی دعوت کے مقابلے میں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک سچی دعوت کے حاملین کو مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اور یہ کشمکش ہی دعوت حق کو باطل دعوتوں سے ممیز کرتی ہے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں سچے پیرو کار چھٹ کر جم جاتے ہیں اور باطل کے حاملین بھاگ جاتے ہیں۔ دعوت کی پشت پر وہی لوگ رہ جاتے ہیں جو خالص اور مخلص ہوں جو مفادات کے بندے نہیں ہوتے۔ صرف اور صرف دعوت اسلامی ہی ان کا نصب العین ہوتی ہے۔ اور وہ صرف رضائے الہی چاہنے والے ہوتے ہیں۔ اگر دعوت اسلامی کا کام آسان ہوتا اور اس کے سامنے ردعمل واہ واہ کا ہوتا اور داعی کی راہ پر پھول بچھائے جاتے اور کوئی دشمن اور ناقد نہ ہوتا تو ہر کہ دمہ دعوت اسلامی کا حامل ہوجاتا۔ کیونکہ نہ کوئی عناد کرنے والا ہوتا اور نہ کوئی جھٹلانے والا اور پھر دعوت حق اور دعوت باطل کے درمیان کوئی فرق بھی نہ ہوتا اور دنیا میں انتشار اور فتنہ برپا ہو اتا۔ لیکن ہر سچی دعوت کے مقابلے میں اللہ نے دشمن اور مدعی پیدا کردیئے اور اللہ نے داعیوں کے لیے جدوجہد کرنا اور مقابلہ کرنا ضروری قرار دیا اور راہ حق میں قربانی دینا اور مشکلات برداشت کرنا اور راہ قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد وہی کرتا ہے جو سچا ہو۔ مشکلات اور قربانیوں کو وہی شخص برداشت کرتا ہے جو سچا مومن ہو۔ ایسے لوگ جو اپنے آرام اور عیش و عشرت کو دعوت حق کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ اور حیات دنیا کی لذتوں کو خیر باد کہتے ہیں بلکہ وہ اس راہ میں جان تک دے دیتے ہیں اگر دعوت کا تقاضا ہو کہ اب جان دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس عظیم جدوجہد کے لیے وہی لوگ تیار ہوتے ہیں جو مضبوط اور ثابت قدم ہوں جو پکے مومن ہوں۔ پختہ ایمان رکھتے ہوں۔ وہ اس اجر کے زیادہ مشتاق ہوں جو اللہ کے ہاں ہے بجائے اس اجر کے جو لوگوں کے پاس ہے۔ جب یہ صورت حالات پیش آجائے تو پھر سچی دعوت اور جھوٹی دعوت کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ ایسیحالات میں دعوت اسلامی کی صفوں کی تطہیر ہوجاتی ہے اور مضبوط قوی اور ثابت قدم لوگ چھٹ کر جدا ہوجاتے ہیں اور کمزور لوگ علحدہ ہوجاتے ہیں۔ پھر دعوت اسلامی ان لوگوں کو لے کر آگے بڑھتی ہے جنہوں نے ثابت قدمی کا انتحان پاس کرلیا ہوتا ہے۔ اور وہی لوگ پھر اس دعوت کے امین اور لیڈرہوت ہیں اور یہی اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ بھاری قیمت ادا کرکے اس نام تک پہنچتے ہیں۔ یہ لوگ سچائی کیساتھ اس دعوت کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ پختہ ایمان کے ساتھ ‘ تجربے اور آزمائشوں نے ان کو بتادیا ہوتا ہے کہ اس دعوت کو مشکل سے مشکل حالات میں انہوں نے کس طرح لے کر چلنا ہے۔ شدائد اور مشکلات نے ان کی پوری قوت کو حساس بنا لیا ہوتا ہے اور ان کی قوت کا سرچشمہ اور طاقت کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے اور وہ مشکل سے مشکل صورت حالات میں دعوت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں عموما یوں ہوتا ہے کہ دعوت اسلامی کے حاملین اور ان کے مخالفین کے درمیان جو کشمکش برپا ہوتی ہے۔ لوگوں کی ایک عظیم تعداد اس میں غیر جانبدار ہو کر تماشادیکھتی ہے۔ یہ تماشا بین آبادی جب دیکھتی ہے کہ دعوت اسلامی کے حاملین اپنے نظریہ اور مقصد کی خاطرعظیم قربانیاں دے رہے ہیں اور بےحدو حساب مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور بڑی ثابت قدمی اور یکسوئی کے ساتھ اپنی راہ پر جارہے ہیں تو پھر یہ یہ تماشا بین عوام الناس سوچنے لگتے ہیں کہ دعوت اسلامی کے ساتھ ملیں آخرکیوں اس قدر قربانیاں دے رہے ہیں اور مشکلات برداشت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقاصد بہت ہی مفید ‘ بہت ہی قیمتی ہوں گے اور وہ جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دے رہے ہیں شاید ان چیزوں سے وہ مقاصد زیادہ قیمتی ہوں۔ اب یہ لوگ دعوت اسلامی کی اصل قدرو قیمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بات عامتہ الناس کی سمجھ میں آجاتی ہے تو وہ پھر فوج درفوج دعوت اسلامی میں داخل ہوتے ہیں اور وہ تماشادیکھنے کے بجائے اب خود تماشا بن جاتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہر نبی کے لی مجرمین میں سے ایک دشمن پیدا کیا۔ یہ مجرمین دعوت اسلامی کی راہ روکنے کی سعی کرتے ہیں۔ پھر نبی اور ان کے عبد ہر حامل حق ان مجرمین کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کو مشکلات درپیش آتی ہیں اور وہ اپنی راہ میں چلتے ہی جاتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے لیے کامیابی مقدر ہوتی ہے۔ اور ان کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ آخرکار وہ اس انجام تک پہنچیں گے۔ آخر میں ان کو ہدایت اور نصرت مل جاتی ہے۔ وکفی بربک ھادیا ونصیرا (25 : 31) ” اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کو کافی ہے “۔ انبیاء کے راستے میں مجرمین کا نمودار ہونا ایک طبیعی امر ہے۔ اس لیے کہ دعوت حق ہمیشہ اپے مناسب اور مقرر وقت پر نمودار ہوتی ہے جبکہ کوئی مخصوص سوسائٹی فساد پذیر ہوجاتی ہے یا پوری انسانیت فساد کا شکار ہوجاتی ہے۔ لوگوں کے قلب و نظر فساد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ لوگوں کے باہم روابط بگڑ جاتے ہیں۔ اس فساد اور بگاڑ کی پشت پر مجرم لوگ ہوتے ہیں ‘ جو ایک طرف فساد کرتے ہیں پھر وہ اس فساد اور بگاڑ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اس فساد کے ہم مسلک اور ہم مشرب ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات اسی فساد زدہ معاشرے میں پوری ہوتی ہیں۔ اور ان کے وجود میں جو فساد اور بگاڑ ہوتا ہے اس کے لیے وجو جوز وہ معاشرے سے نکالتے ہیں کہ بس معاشرہ ہی ایسا ہے۔ اس لیے یہ بالکل طبیعی بات ہے کہ ایسے لوگ انبیاء کی راہ روک کر کھڑے ہوجائیں اور انبیاء کے دور کے بعد ان لوگوں کی راہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو انبیاء کی دعوت کو لے کر رکھتے ہیں کیونکہ یہ مجرم دراصل ان کے بگڑے ہوئے وجود کا دفاع ہوتا ہے ‘ اس لیے کہ حشرات میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو پاک و صاف اور خوشبودار اور شفاف ماحول میں زندہ ہی نہیں رہتے ‘ فوراً مرجاتے ہیں اس لیے کہ یہ گندے ماحول میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ بعض کیڑے ایسے ہوتے ہیں جو صاف پانی میں مرجاتے ہیں ‘ کیونکہ وہ صرف گندے اور سڑے ہوئے پانی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی حال ان مجرموں کا ہوتا ہے لہٰذا یہ طبیعی امر ہے کہ وہ دعوت حق کے دشمن ہوں اور اس کے مقابلے میں جان دینے کے لیے تیار ہوں اور یہ بھی بالکل طبیعی امر ہے کہ آخر میں دعوت اسلامی کو کامیابی ہو کیونکہ دعوت اسلامی زندگی کی ترقی پذیر لائٹوں پر چلنے والی ہوتی ہے۔ اور اس طرح دعوت اسلامی کو وہ عروج نصیب ہوتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمایا ہوتا ہے۔ وکفی بربک ھادیا ونصیرا (25 : 31) ” اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی راہنمائی اور مدد کو کافی ہے “۔ اس کے بعد اب کفار کے اعتراضات بابت طریقہ نزول قرآن نقل کیے جاتے ہیں اور ان کی تردید کی جاتی ہے۔ (وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترتیلا) (25 : 32) ” منکرین کہتے ہیں اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ؟ “۔۔۔۔۔ ہاں ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے ہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے “۔ قرآن کریم نازل ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے ایک امت کی تربیت کی جائے۔ ایک نیا معاشرہ وجود میں لایا جائے۔ اس معاشرے میں ایک نیا نظام وجود میں لایا جائے۔ اور تربیت اس بات کی محتاج ہے کہ انسان کو بار بار تلقین کی جائے اور وہ متاثر ہوتا جائے۔ اور یہ تاثیر اور تاثر ایک مسلسل حرکت کے ذریعہ جاری رہے کیونکہ انقلاب انسانوں کے اندر پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہی اور انسان ایک ایسیذات ہے کہ اسے صرف ایک شب و روز میں تربیت نہیں دی جاسکتی کہ بس اس کے ہاتھ میں ایک نئے نظام پر مشتمل ایک کتاب پکڑا دی جائے۔ اور اس میں جدید معاشرے کے مکمل خدوخال ہوں بلکہ انسانوں کی تربیت یوں ہوتی ہے کہ اسے تدریج کے ساتھ ایک طویل عرصے کے بعد بدلا جاتا ہے۔ اور یہ تبدیلی اس کے اندر آہستہ آہستہ آتی رہتی ہے۔ ہر دن کی غذا کے بعد دوسرے دن وہ زیادہ غذا کے لیے تیار ہوتا ہے اور دوسرے دن کی خوراک وہ پھر بڑی خوشی سے لیتا ہے اور بڑے مزے سے قبول کرتا ہے۔ قرآن کریم زندگی کا ایک مکمل نظام لے کر آیا ہے اور قرآن کریم نے انسانوں کی تربیت کے لیے بھی ایک فطری منہاج اختیار کیا۔ یہ منہاج اس ذات کی طرف سے تھا جس نے انسان کو پیدا کیا تھا اس لیے قرآن کریم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا گیا تاکہ وہ جماعت مسلمہ کی حقیقی اور زندہموجود ضروریات کو پورا کرتا چلاجائے۔ کیونکہ یہ جماعت آہستہ آہستہ تعمیر ہورہی تھی۔ وہ اپنی استعداد کے مطابق ‘ اپنی قوت کے مطابق ایک ایک قدم آگے بڑھ رہی تھی۔ ٹھیک ٹھیک اللہ کے حقیقی منہاج تربیت کے مطابق۔ چناچہ قرآن مجید کو بیک وقت منہاج تربیت اور نظام زندگی کی تشکیل کے لیے اتارا گیا۔ اس لیے اس کا متفرق نزول لازمی تھا۔ یہ محض کوئی علمی ثقافتی اور ادبی کتاب نہ تھی کہ مکمل شکل میں اسے تصنیف کر کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا۔ اور لوگ اسے پڑھتے رہتے اور مزے لیتے رہتے۔ اور پس اس پر عمل کی ضرورت نہ ہوتی۔ بلکہ یہ تو حرف حرف ‘ کلمہ اور ایک ایک حکم کے طور پر آیا۔ اس کی ہر آیت حکم الیوم (آرڈر آف دی ڈے) کے طور پر آئی۔ مسلمان حکم پاتے اور ان پر عمل کرتے۔ جیسا کہ ایک فوجی احکام لیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ وہ اس حکم کو لیتا ہیسمجھتا ہے اور نافذ کردیتا ہے۔ خود بھی اس کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے اور معاشرے کو اس میں غرق کردیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قرآن متفرق طور پر نازل ہوا ہے ‘ تاکہ رسول کے قلب کے اندر اچھی طرح جاگزیں ہو۔ حضور ﷺ سے پہلے خود اس پر ثابت قدم ہوجائیں اور ایک ایک جز کے بعد اس کا دوسرا جز آئے اور اس پر عمل ہوتا رہے۔ کذلک لنثبت بہ فوء دک ورتلنہ ترتیلا (25 : 32) ” ہاں ایسا ہی کہا گیا تاکہ ہم اس کو اچھی طرح ہمارے ذہن نشین کرتے رہیں اور ہم نے اسے ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی “۔ ترتیل کا مفہوم یہاں اللہ کی حکمت کے مطابق آگے پیچھے نازل کرنا ہے ‘ اللہ کے علم کے مطابق اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق اور اللہ کی اس حکمت کے مطابق جس کی رو سے اللہ جانتے تھے کہ لوگوں کے اندر کس قدر احکام و ہدایات قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوگئی ہے۔ قرآن کریم نے اپنے پے درپے منہاج نزول کے ذریعہ ان لوگوں کی تربیت کے میدان میں معجزات دکھائے۔ لوگ اس کے نزول سے دن بدن تاثرات لیتے رہے۔ اور ان کے اخلاق کی تشکیل آہستہ آہستہ ہوتی رہی۔ بسبب مسلمانوں نے قرآن مجید کا منہاج تربیت فراموش کردیا اور قرآن مجید کو انہوں نے محض علم و ثقافت کے طور پر پڑھنا شروع کردیا اور قرآن کو ایک ایسی کتاب تصور کرلیا جسے فقط پڑھا جاتا ہے ‘ اس کے مطابق معاشرے کو ڈھالنا ضروری نہیں ہے ‘ اس کی کیفیات میں ڈوبنا ضروری نہیں ہے اور نہ اس کے مطابق نظام زندگی قائم کرنا ضروری ہے تو مسلمانوں نے اس قرآن سے نفع لینا ترک کردیا اور قرآن نے ان کو نفع دینا چھوڑ دیا کیونکہ مسلمانوں نے وہ منہاج تربیت ہی ترک کردیا جو ان کے لیے علیم وخبیر نے قرآن میں منضبط کیا تھا۔ یعنی یہ کہ اسے ایک ایک کر کے عمل میں لایا جائے۔ نبی ﷺ کے مخالفین جو نکتہ اعتراض اٹھاتے تھے۔ جو نئے نئے اعتراضات کرتے تھے جو مطالبات کرتے تھے۔ یہ قرآن اپنے منہاج نزول متفرق کے ذریعے ایک ایک کا تشفی بخش جواب دے دیتا تھا۔ (ولا یاتونک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسیرا) (25 : 33) ” اور جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات لے کر آئے اس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی “۔ یہ لوگ باطل طریقے سے مجادلہ کرتے تھے اور اللہ ان کے جواب میں حق اتار تا تھا جو باطل کا سر کچل کر رکھ دیتا تھا۔ کیونکہ قرآن مجید کی غرض وغایت ہی یہ تھی کہ دنیا میں حق جم جائے۔ محض بحث و مباحثے میں کامیابی مقصود نہ تھی بلکہ حق کو دنیا میں قوت دینا ‘ واضح کرنا اور غالب کرنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کی قوم کے درمیان ہر قسم کے مجادلے میں آپ ﷺ کی مدد کرے گا۔ کیونکہ آپ ﷺ حق پر ہیں اور حق کے ساتھ اللہ آپ ﷺ کی امداد کرتا ہے اور باطل کو مٹاتا ہے۔ تو اللہ کی بنائی ہوئی حجت بالغہ کے مقابلے میں ان کا مجادلہ اور مباحثہ کس طرح ٹھہر سکتا تھا کیونکہ آپ ﷺ کے پاس رب تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی سچائی تھی جو ایک گولے کی طرح باطل کے سر پر لگتی تھی اور اسے کچل کر رکھ دیتی تھی۔ یہ بات اب اس مضمون پر ختم ہوتی ہے کہ کس طرح وہ قیامت کے دن جہنم رسید کیے جائیں گے۔ کیونکہ وہ حق کا انکا کرتے تھے اور اسلام کے خلاف مجادلے میں اور مقابلے میں وہ الٹی منطق استعمال کرتے تھے ‘ اس لیے قیامت میں بھی انہیں منہ کے بل الٹا گرایاجائے گا۔ (الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضل سبیلا) (25 : 34) ” جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ‘ انکا موقف بہت برا ہے اور ان کی راہ حد درجہ غلط “۔ حشر کے دن ان کی حالت کو ذرا دیکھئے ‘ منہ کے بل اٹھیں گے نہایت ہی توہین آمیز انداز میں۔ اس لیے کہ دنیا میں یہ تکبر کی وہ سے منہ پھیرتے تھے ۔ ان کا یہ منظر رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ‘ تاکہ آپ ﷺ کو تسلی ہو کہ یہ لوگ اس وقت آپ ﷺ کو اذیت دیتے ہیں لیکن ان کا انجام بہت ہی برا ہونے والا ہے۔ اور اس کا ایک منظر آپ ﷺ کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ مجردیہ منظر ہی ان کی اکڑ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور یہ لوگ ایسے مناظر سے ڈر کر متاثر بھی ہوتے تھے مگر پھر بھی حجت کر کے اپنے اوپر اس برے انجام کو لازم کرتے تھے اور اس عناد کی وجہ سے وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ اب روئے سخن ان سابق اقوام کی طرف پھرجاتا ہے جنہوں نے تکذیب کی اور ہلاک کردیئے گئے۔
Top