Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 65
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ١ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اصْرِفْ : پھیر دے عَنَّا : ہم سے عَذَابَ جَهَنَّمَ : جہنم کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَهَا : اس کا عذاب كَانَ غَرَامًا : لازم ہوجانے والا ہے
” جو دعائیں کرتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے
والذین ……ومقاماً (66) اللہ کے بندوں کی نمازوں کی تعبیر یہاں ارکان نماز سجود و قیام سے کی گئی تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان کی سرگرمیاں کیا تھیں۔ راتوں کو جب تمام مخلوق سوتی ہے تو وہ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ وہ صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صرف اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ صرف اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور راتوں کو وہ فرحت بخش اور لذیذ نیند ترک کرتے ہیں کیونکہ ان کو اس میٹھی اور لذیذ نیند سے اللہ کے سامنے قیام و سجود میں زیادہ لذدت آتی ہے۔ ان کا جسم ان کی روح اور ان کی سوچ اللہ سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس لئے لوگ غفلت کی نیند سوتے ہیں اور وہ رکوع و سجود میں مشغول ہیں۔ لوگ زمین پر لیٹے ہیں اور وہ آسمان اور بلندیوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور ذوالجلال والا اکرام کے ساتھ لو لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے قیام و سجود کی محض صورت اور شکل ہی نہیں بنائی ہوئی ہوتی ، اس قیام اور سجود اور عالم بالا کی طرف اپنی سوچ متوجہ کرنے ساتھ ساتھ ان کے دل میں خدا کا خوف اور تقویٰ بھی پایا جاتا ہے۔ ان کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ کسی طرح وہ عذاب جہنم سے نجات پا لیں۔ وہ ہر وقت دعا کرتے ہیں۔ ربنا ……ومقاماً (25 : 66) ” اے ہمارے رب ، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے ، وہ تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے۔ “ انہوں نے جہنم کی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن جہنم کے وجود پر ایمان لائے ہیں اور رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم نے جہنم کی جو تصویر کھینچی ہے انہیں اس پر پورا پورا یقین ہے۔ اس لئے ان کو جو خوف لاحق ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ جہنم بہت بڑا ٹھکانا ہے ، یہ ان کے پختہ یقین کا ثبوت ہے اور ان کے گہرے تصدیق کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنے رب کی طرف نہایت ہی خضوع او خشوع کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں تاکہ رب کریم مہربانی کر کے جہنم کے عذاب کو ان سے پھیر دے۔ صرف عبادت اور قیام و سجود ہی سے وہ مطمئن نہیں ہوجاتے۔ وہ اس قدر حساس متقی ہیں کہ اپنی عبادت پر تکیہ نہیں کرتے۔ وہ عبادت کو قلیل سمجھتے ہیں۔ اس لئے نجات کے لئے اسے پورا ضامن نہیں سمجھتے۔ چناچہ وہ اس عبارت کے ساتھ ساتھ اللہ کے فضل و کرم کے بھی طلبگار ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم ہی سے عذاب الٰہی ٹل سکتا ہے۔ انداز کلام سے جہنم کی نقشہ کشی یوں ہوتی ہے کہ وہ ایک زندہ بلا ہے۔ ہر شخص اس کے منہ میں ہے۔ ہر شخص کو و پکار رہی ہے ، ہر شخص کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے ، ہاتھ آگے بڑھا چڑھا کر لوگوں کو اپنے قبضے میں لیتی جاتی ہے ۔ دور اور قریب سب اس کی پہنچ میں ہیں اور اس کے خوف کے مارے اللہ کے یہ بندے رات دن اللہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس سے ڈر ڈر کر اللہ سے پناہ مانگتے ہیں عاجزی کرتے ہیں اور درخواستیں اور فریادیں کرتے ہیں کہ ای اللہ بچائیو ، یہ تو کھائے جا رہی ہے۔ جب وہ اللہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر ، نہایت ہی خوف سے اور نہایت ہی گھبراہٹ سے دعا کرتے ہیں تو انداز کلام ماحول کے اندر ارتعاش پیدا کردیتا ہے۔ ان عذابھا کان غراماً (25 : 65) ” بیشک اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔ “ یعنی ایسا عذاب ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ پھر کبھی چھوڑتا نہیں۔ نہ کم ہوتا ہے اور نہ ختم ہنے کا نام لیتا ہے۔ یہی وصف ہے جہنم اک جو ان بندوں کو خائف کر رہا ہے اور وہ ہر وقت اس سے ڈرے سہمے رہتے ہیں۔
Top