Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 67
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَآ اَنْفَقُوْا : جب وہ خرچ کرتے ہیں لَمْ يُسْرِفُوْا : نہ فضول خرچی کرتے ہیں وَلَمْ يَقْتُرُوْا : ور نہ تنگی کرتے ہیں وَكَانَ : اور ہے بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان قَوَامًا : اعتدال
جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے
پھر یہ بندے اعتدال و میانہ روی کا نمونہ ہیں۔ ان کی زندگی نہایت ہی متوازن ہے۔ والذین ……قواماً (67) یہ اسلام کی بنیادی خصوصیت ہے ، جسے وہ ایک مسلم فرد اور ایک مسلم جماعت کی زندگی کے اندر ایک حقیقت کی شکل میں پیدا کرت ا ہے۔ اسلام اس خصوصیت کو اپنے نظام تربیت و اخلاق اور نظام معیشت و قانون دانوں میں پیش نظر رکھتا ہے۔ چناچہ اسلامی نظام کے ہر جز کو مدار توازن اور اعتدال پر ہے۔ باوجود اس کے کہ اسلام ایک فرد کو انفرادی مخصوص ملکیت رکھنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اسلام ایک مسلم فرد کو کھلی چھٹی نہیں دیتا کہ وہ ” اپنی “ دولت کو جس طرح چاہے خرچ کرے۔ جبکہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام میں ایک فرد کو مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنی انفرادی دولت کو جس طرح چاہے خرچ کر دے۔ اسی طرح تمام غیر مسلم اقوام کے ہاں بھی یہی اصول ہے کہ ایک شخص اپنی انفرادی ملکیت کو جس طرح چاہے ، خرچ کر دے۔ اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ لیکن ایک مسلمان انفرادی دولت خرچ کرنے میں بھی اس بات کا پابند ہے کہ اسراف اور کنجوسی کے درمیان جد اعتدال پر قائم رہے۔ اسراف کی وجہ سے جان ، مال اور معاشرے سب کی تباہی ہے اور کنجوسی بھی اسی طرح جان ، مال اور معاشرے کا نقصان ہے کہ ایک شخص اپنے مال سے فائدہ نہیں اٹھاتا ۔ کیونکہ اگر کوئی مال سے نفع اٹھاتا ہے اور خرچ کرتا ہے تو اس سے دوسرے کی آمدن ہوتی ہے اس لئے کہ مال تو ایک اجتماعی ذریعہ ہے جس سے پوری سوسائٹی کو فائدہ ملتا ہے اور اسراف اور کنجوسی دونوں سے معاشرے اور اجتماعی اقتصادیات کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر مال کو روک دیا جائے تو کساد بازاری پیدا ہوتی ہے اور اگر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو دوسروں کی قوت خرید متاثر ہوتی ہے اور پھر اس سے اخلاقی فساد بھی پیدا ہوتا ہے۔ چناچہ اسلام سوسائٹی کے اس پہلو کی بھی اصلاح کرتا ہے اور اعتدال اور توازن کو ایک مسلم شخصیت کا حصہ بنا دیتا ہے اور اس کا تعلق ایمان سے جوڑ دیتا ہے۔ وکان بین ذلک قواماً (25 : 68) ” بلکہ اس کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال قائم رہتا ہے۔ “ …… وکان بین ذلک قواماً (25 : 68) ” بلکہ اس کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ “ اور پھر عباد الرحمٰن کی بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے اور کسی زندہ جان کو قتل نہیں کرتے۔ وہ زنا نہیں کرتے۔ شرک ، قتل اور زنا اسلام میں اکبر الکبائر گناہ اور جرائم ہیں۔ جو شخص یہ گناہ کرے گا وہ ضرور سزا کا مستوجب ہوگا۔
Top