Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 128
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ
اَتَبْنُوْنَ : کیا تم تعمیر کرتے ہو بِكُلِّ رِيْعٍ : ہر بلندی پر اٰيَةً : ایک نشانی تَعْبَثُوْنَ : کھیلنے کو (بلا ضرورت)
” یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لا حاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو
اتبنون بکل ……تخلدون (79) ربع عربی میں بلند زمین کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اونچے مقامات پر مکانات بناتے تھے اور دور سے وہ مکانات یوں نظر آتے تھے جیسا کہ بڑا پہاڑ اور مقصود ان کا یہ دکھانا تھا کہ وہ بڑے ماہر فن اور بڑے صاحب مقدرت ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کے لئے عبث کا لفظ استعمال کیا ، اگر یہ بڑے بڑے نشانات وہ مسافروں کی رہنمائی یا سمندری جہازوں کی راہنمائی کے لئے بناتے تو قرآن ان کے لئے عبث کا لفظ استعمال نہ کرتا۔ اس سے یہ تاثر دینا مطلوب ہے کہ قوت اور مہارت اور دولت کو منفعت بخش امور میں خرچ کرنا ہے۔ محض نمائش ، زیبائش اور اظہار حسن و کمال کے لئے نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس تبصرے میں ایک معنی خیز فقرہ بھی استعمال کیا ہے۔ وتخذون مصائع لعلکم تخلدون (26 : 129) ” تم بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو ، گویا تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ “ قوم عاد تہذیب و تمدن میں قابل ذکر حد تک ترقی کر گئے تھے۔ بڑے بڑے محلاث بنانے اور پہاڑوں کو کانٹے کے لیء انہوں نے ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ایجاد کرلی تھی۔ بڑے بڑے مینارے بلند مقامات پر بناتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ شاید یہ بڑے بڑے محلات اور اونچی اونچی علامات اور مینار سے وہ اس لئے بناتے تھے کہ انہیں اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ نہ اس دنیا کے طبعی حالات ان پر اثر انداز ہوں گے اور نہ کوئی دشمن ان پر فتح پا سکے گا۔ حضرت ہود اپنی تنقید جاری رکھتے ہیں :
Top