Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 153
قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۚ
قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تم مِنَ : سے الْمُسَحَّرِيْنَ : سحر زدہ لوگ
انہوں نے جواب دیا ” تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے۔
قالوا انمآ ……(154) ان کا جواب یہ تھا کہ اے صالح تم پر کسی نے جادو کردیا ہے ، اس لئے تو یہ باتیں بغیر سوچے سمجھے کر رہا ہے۔ ان کے خیالات کے مطابق خدا کی طرف دعوت دینے والے مجنون ہوتے ہیں۔ ما انت الا بشر مثلنا (26 : 153) ” تو ہم جیسے ایک انسان کے سوار اور کیا ہے۔ “ جب بھی انسانوں کے کسی گروہ کے پاس کوئی رسول آیا ہے۔ انہوں نے یہی کہا ہے کہ تم تو ہم جیسا ہی ایک آدمی ہے۔ انسانوں نے ہمیشہ رسولوں کے بارے میں اور رسالت کے بارے میں کوتاہ بینی سے کام لیا۔ وہ اس بات کو کبھی نہ سجھ سکے کہ رسول بشر کیوں ہوتا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ انسانوں میں سے کسی کو رسول بنا کر بھیجنا دراصل انسانیت کے لئے ایک عظیم تکریم ہے کہ انسانوں میں سے کوئی شخص عالم بالا سے مربوط ہوجاتی ہے اور رشد و ہدایت کے سرچشمے یعنی اللہ تعالیٰ کے دربار سے براہ راست ہدایت پاتا ہے۔ انسانوں نے ہمیشہ رسولوں کو ایک دوسری مخلوق سمجھا۔ یا لوگوں نے یہ سمجھا کہ ایسا ہونا چاہئے کہ رسول انسانوں سے کوئی بالا و برتر مخلوق ہو۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک انسان غیب کی خبریں دے۔ نظروں سے اوجھل دنیا کی بات کرے اور یہ انسان یہ بات اس لئے کرتے تھے کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ نے انسان کو یہ شرف بخشا …… کہ اس زمین میں رہتے ہوئے بھی اس انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں ہیں کہ وہ عالم بالا سے رابطہ رکھ سکے جو اس دنیا میں رہے۔ کھائے پئے ، شادی کرے ، سوئے بازاروں میں پھرے اور وہ سب کام کرے جو بشر کرتے تھے۔ میلانات اور جذبات رکھنے والا ہو لیکن اس کے باوجودوہ اس بر اعظم کا مالک ہو۔ وحی الٰہی کا مہیط ہو۔ پھر ہر دور میں انسانوں نے رسولوں سے معجزہ طلب کیا ہے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ حضور ایک سچے رسول ہیں۔ فات بایۃ ان کنت من الصدقین (26 : 153) ” لائو کوئی نشانی اگر تم سچے ہو “ تو ثمود نے بھی معجزہ طلب کیا اور حضرت صالح نے جواب دیا کہ ہاں یہ معجزہ یہ ناقہ کیسی تھی ؟ ہم یہاں اس کی تعریف ہیں وہ رعب ودیا بس کہانیاں لانا نہیں چاہتے جو مفسرین نے دی ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی کھٹائی صحیح اور مستند روایت سے منقول نہیں ہے۔ ہاں یہ ایک معجزاتی ناقہ تھی۔
Top