Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائو
فلا تدع ……العزیز الرحیم (219) ان کے ساتھ تواضح سے پیش آئو لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، اس سے میں بری الذمہ ہوں اور اس زبردست اور رحیم پر توکل کرو جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ “ اگر نبی کریم ﷺ بھی اللہ کے سوا کسی اور کو پکاریں تو وہ بھی معذبین میں سے ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ محال ہے اور اللہ نے سجھانے کے لئے فرض کیا ہے تو پھر اور لوگکس باغ کی مولی ہیں۔ جو لوگ رات اور دن اللہ کے سوا اور دل کو پکارتے ہیں وہ کس طرح عذاب الٰہی سے بچ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میں کوئی رو رعایت نہیں ہیں۔ رسول بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر اس نے اس عظیم جرم کا ارتکاب کیا تو ……بھی۔ رسول اللہ ﷺ کو عذاب سے ڈرانے کے بعد اب یہاں آپ کے رشتہ داروں کو ڈرانے کا حکم دیا جاتا ہے تاکہ دور سے لوگ زیداہ ڈر جائیں ، اگر رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتہ دار (مثلاً ابو طالب) ایمان نہ لائے اور شرک پر مرے تو معذبین میں سے ہوگا تو اور لوگوں کے لئے جاننا چاہئے کہ کوئی رعایت نہ ہوگی۔ بخاری اور مسلم شریف میں منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور پکارا ” باصباحا “ تو سب لوگ جمع ہوگئے۔ ہر شخص دوڑ کر آپ کے پاس پہنچ گیا یا اس نے اپنا کوئی نمائندہ بھیج دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یا نبی عبدالمطلب یا نبی مہرہ یا نبی لوئی دیکھو ! اگر میں ت میں یہ خبر دوں کہ پہاڑ کی اس طرف سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو تم میری تصدیق کرو گے ؟ تو انہوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ میں تمہارے لئے ڈرانے والا ہوں اور ایک شدید عذاب تمہارے انتظار میں ہے اس پر ابولہب نے کہا ” تم پر ہلاکت ہو سارے دن کے لئے۔ “ کیا تم نے صرف اس بات کے لئے ہمیں بلایا اور اسی موقعہ پر یہ سورت بھی نازل ہوگئی۔ تبت یدا ابی لھب و تب امام مسلم نے اپنی سند ہے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی۔ وانذر عشیرتک الاقربین (62 : 312) ” اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائو “ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے اور فرمایا ” اے فاطمہ بنت محد ، اے صفیہ بنت عبدالمطلب ، اے اولاد عبدالمطلب میں تمہارے بارے میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں کھتا۔ میرے مال کے بارے میں تم جو چاہتے ہو ، مجھ سے لے سکتے ہو۔ “ امامت رمذی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ سے یہ نقل فرمایا ہے۔ کہتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے قریش کو بلایا تو آپ نے عام بات بھی کی اور خاص بات کی۔ فرمایا اے اہل قریش ، اپنے نفوس کو آگ سے بچائو ، ایاولاد کعب اپنے آپ کو آگ سے بچائو ، اے فاطمہ بنت محمد اپنے نفس کو آگ سے بچائو ، خدا کی قسم میرے پاس تمہارے لئے خدا کے ہاں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ میں تمہارا رشتہ دار ہوں۔ تو احادیث اور ان کے ساتھ دوسری احادیث ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حکم کو اس طرح لیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو کس طرح خبردار کیا اور آخرت کے معاملے میں ان کو اپنے رب کے حوالے کردیا اور ان کے سامنے صاف صاف کہہ دیا کہ میری قرابت کسی کو وہاں کوء فائدہ نہ دے گی۔ اگر تمہارے لئے تمہارا عمل نافع نہ ہوا اور یہ کہ تمہارے لئے میرے پاس اللہ کے ہاں کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ اللہ کے رسول تھے۔ غرض یہ ہے اسلام اور اس کے صاف صاف تعلیم ، بالکل واضح اور دو ٹوک بات اور اللہ اور بندے کے درمیان ہر قسم کیواسطوں کی نفی۔ یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ بھی واسطہ اور وسیلہ نہیں ہیں۔ پھر نبی ﷺ کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ جن مومنین نے تمہاری دعوت کو قبل کرلیا ہے ان کے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا ہوگا۔ واخفض جناحک لمن اتبعک من المومنین (62 : 12) ” اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضح کے ساتھ پیش آئو۔ “ ‘ پروں کو ان کے لئے بچھانے سے مراد تواضع کرنا اور نرمی کرنا ہے۔ نہایت ہی مجسم اور حسی انداز میں بیان فرمایا کہ جب پرندہ اترتا ہے تو پروں کو پوری طرح بچھاتا ہے اور رفتار نرم کرتا ہے حضور اکرم نے اپنی پوری زنگدی میں اہل ایمان کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ کیونکہ آپ کے اخلاق بعینہ قرآن تھے آپ کی زندگی قرآن کریم کا عملی ترجمہ تھی۔ اور جو لوگ آپ کی نافرمانی رتے ہیں ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں اور ان سے اپنی برأت کا اعلان کردیں۔
Top