Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 52
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی کی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ اَسْرِ : کہ راتوں رات لے نکل بِعِبَادِيْٓ : میرے بندوں کو اِنَّكُمْ : بیشک تم مُّتَّبَعُوْنَ : پیچھا کیے جاؤگے
” ہم نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ ” راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جائو ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا
اب اہل ایمان کے خلاف فرعون کی تدابیر کا ایک منظر اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی راہنمائی کا ایک منظر : واوحینآ الی ……حذرون (56) اب یہاں واقعات اور زمانے کے اعتبار سے ایک بڑا اور طویل خلا ہے۔ بیچ میں سے طویل زمانے اور واقعات کو حذف کردیا جاتا ہے۔ اس مقابلے کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) بھی مصر میں کام کرتے رہے اور سورت اعراف میں جن دوسرے معجزات کا ذکر ہوا ہے وہ بھی اس عرصہ میں رونما ہئے اور آخر کار وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جائیں۔ لیکن اس سورت میں ان تمام واقعات کو لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اور قصہ مسویٰ کے ان حصوں کو یہاں لے لیا جاتا ہے جو اس سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بذریعہ وحی اجازت دے دی کہ آپ اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں۔ تمام بنی اسرائیل رات کو نکلیں۔ اس سفر کے لئے نہایت منظم خفیہ انتظامات کئے گئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ اطلاع بھی کردی گئی کہ فرعون ہر حال میں تمہارا پیچھا کرے گا اور ساحل سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اس جگہ ساحل سمندر تک پہنچے وہ خلیج سویز اور چھوٹے چھوٹے بحیروں کے موجودہ علاقے میں یہ واقع تھا۔ فرعون کو خفیہ طور پر اطلاعات مل گئیں کہ بنی اسرائیل نکلنے والے ہیں۔ تو اس نے بھی اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ جس وقت بھی خروج شروع ہو ، پیچھا کرنے کے لئے افواج کو تیاری کی حالت میں رکھا جائے۔ تمام علاقوں میں اس نے اپنے ہر کارے بھیج دیئے کہ افواج کو تیار کیا جائے کہ یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔ یہ بچ نکلنے کی تدبیریں سوچ رہا ہے لیکن اسے پتہ نہ تھا کہ یہ خروج اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظم کیا جا رہا ہے۔ فرعون کے لوگ فوجوں کو تیار کرتے رہے لیکن عوام کیا ندر یہ بےچینی پیدا ہو سکتی تھی کہ آخر موسیٰ کے پاس کتنی بڑی طاقت ہے کہ اس کے مقابلے میں اس قدر وسیع پیمانے پر تیاریاں ہو رہی ہیں جبکہ فرعون اپنے آپ کو الہہ بھی کہتا ہے اور پھر بھی ایک پبلک کے فرد کے مقابل میں اس قدر جنگی تیاریاں کر رہا ہے۔ چناچہ اس موقعہ پر فرعون کو اس قسم اعلان کی ضرورت پیش آئی۔ ان ھولاء لشر ذمۃ قلیلون (26 : 53) ” یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ ‘ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان کے خلاف اس قدر انتظام کیوں ہو رہا ہے اور فوجیں کیوں جمع کی جا رہی ہیں اگر وہ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ “ وانھم لنا لغآئظون (26 : 55) ” اور انہیں نے ہم کو بہت ہی ناراض کیا ہے۔ “ یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جو ہمارے سامنے کسی نے نہیں کیے ، اس لئے ان کی وجہ سے ہم غیظ و غضب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ہمارے اندر جوش انتقام پیدا ہوگیا ہے۔ اگرچہ یہ لوگ نہایت ہی خطرناک ہیں اور ان کی تحریک ایک مضبوط تحریک ہے۔ لیکن سرکاری لوگ عوام سے یہی کہیں کہ حکومت نے مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کی ہوئی ہیں اور ان پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ وانا لجمیع حذرون (26 : 56) ” اور ہم ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہمیشہ چوکنا رہنا ہے۔ “ اور ہم ان کی سازشوں کے مقابلے میں بیدار ہیں۔ ان کے معاملات میں بڑی احتیاط برت رہے ہیں اور ان کو اچھی طرح کنٹرول کر رہے ہیں۔ جب بھی اہل باطل کا اہل ایمان سے مقابلہ ہوتا ہے تو اہل باطل اہل ایمان کے مقابلے میں اسی طرح حیران و پریشان ہوتے ہیں۔
Top