Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 74
قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ
قَالُوْا : وہ بولے بَلْ : بلکہ وَجَدْنَآ : ہم نے پایا اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا كَذٰلِكَ : اسی طرح يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے
” انہوں نے جواب دیا ” بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے
قالوا بل وجدنآ ابآء نا کذلک یفعلون (74) بیشک یہ بات تو نہ نفع دیتے ہیں ، نہ نقصان اور نہ سنتے ہیں لیکن ہمارے آباء و اجداد سے یہ عمل یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے کہ ہم ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ تو نہایت ہی شرمسار کرنے والا جواب ہے لیکن مشرکین بڑی ڈھٹائی سے یہ جواب دیتے ہیں اور اسی طرح مکہ کے مشرکین بھی یہی کہتے تھے اور کوئی شرم محسوس نہ کرتے تھے بلکہ ان کے لئے ان کے آباء و اجداد کا فعل ہی کافی دلیل تھا۔ مزید بحث کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان لوگوں کی یہ آباء پرستی ہی اسلام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی کہ وہ آباء کے دین کو چھوڑ دیں ، یوں وہ آباء و اجداد کی پیروی ترک کردیں اور بالواسطہ یہ اقرار کرلیں کہ ہمارے آباء گمرایہ پر تھے۔ لہٰذا گزرے ہوئے اجداد کے حق میں یہ بات درست نہیں ہے۔ یوں آباء و اجداد کا یہ احترام ، بےحقیقت احترام ، سچائی کو قبول کرنے کی راہ میں ہمیشہ ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ خصوصاً جب لوگ عقلی لحاظ سے جامد اور کورے ہوجاتے ہیں اور ایسے جمود اور دہم پرستی اور آباء پرستی سے لوگوں کو نکالنے کے لئے ان کو بڑا ذہنی جھٹکا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ لوگ آزادانہ غور و فکر سے کام لیں۔ اس جموں اور غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے ضروری تھا کہ حضرت ابراہیم ان کو ایک سخت جھٹکا دیں حالانکہ حضرت ابراہیم اپنے مزاج کے اعتبار سے نہایت ہی نرم اور سنجیدہ تھے۔ چناچہ آپ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اچھا میں تو ان کا دشمن ہوں اور ان تمام نظریات کا دشمن ہوں جو اس بات پرستی کی اساس پر اٹھائے گئے ہیں۔
Top