Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠ ۧ
وَاِذَا
: اور جب
وَقَعَ الْقَوْلُ
: واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب)
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اَخْرَجْنَا
: ہم نکالیں گے
لَهُمْ
: ان کے لیے
دَآبَّةً
: ایک جانور
مِّنَ الْاَرْضِ
: زمین سے
تُكَلِّمُهُمْ
: وہ ان سے باتیں کرے گا
اَنَّ النَّاسَ
: کیونکہ لوگ
كَانُوْا
: تھے
بِاٰيٰتِنَا
: ہماری آیت پر
لَا يُوْقِنُوْنَ
: یقین نہ کرتے
اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان پر آپہنچے گا تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے
اب علامات قیامت کے موضوع پر اور قیامت کے بعض مناظر کی طرف بات نکلتی ہے۔ اور اس کے بعد اس سورت پر آخری تبصرہ ہوگا۔ ایک ایسا دابۃ الارض جو ان لوگوں کے ساتھ ہمکلام ہوگا ، جو اللہ کی تکوینی آیات کو نہیں مانتے۔ اس کے بعد حشر و نشر کا منظر جہاں یہ تکذیب کرنے والے اور جدل وجدال کرنے والے نہایت ہی خاموشی کے ساتھ چپ چاپ کھڑے ہوں گے۔ پھر یہاں دنیا کی آیات و نشانات مثلا ً گردش لیل و نہار کے مناظر کی طرف بھی انسان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ آیا ان سے بڑا معجزہ بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ لیکن لوگ ان سے غافل ہیں۔ پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو یہ لوگ عظیم جزع و فزع میں مبتلا ہوں گے اور چیخ و پکار کریں گے مگر بےفائدہ ۔ جب پہاڑ چل پڑیں گے اور یہ فضائے کائنات میں بادلوں کی طرف اڑ رہے ہوں گے پھر بتایا جاتا ہے کہ کچھ لوگ اس جزع و فزع اور خوف و ہراس سے متاثر نہ ہوں گے اور بالکل مطمئن کھڑے ہوں گے اور کچھ دوسرے نہایت ہی دہشت زدہ سرنگوں ہوں گے۔ اور اسی حالت میں جہنم کے اندر گرا دئیے جائیں گے۔ واذا وقع القول علیھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھل تجزون الا ما کنتم تعملون (82- 90) ” ، ۔ “۔۔۔۔ ، “۔ زمین سے جانور نکالنے کا ذکر بعض احادیث میں آتا ہے۔ لیکن ان صحیح روایات میں اس جانور کی تفصیلات وصفات نہیں ہیں۔ جن روایات میں اس جانور کی کچھ صفات بیان ہوئی ہیں۔ وہ حد صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہیں ، لہٰذا ہم یہاں ان صفات سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کسی جانور کا طول اگر سات گز ہو یا اس کا روئیں والا ہونا ، یا داڑھی والا ہونا ، یا اس کا سر بیل جیسا ہونا ، یا اس کی آنکھیں خنزیر جیسی ہونا ، یا اس کے کان ہاتھی جیسے ہونا یا اس کے سینگ بارہ سنگے یا اس کی گردن آہو کی طرح ہونا اور اس کا سینہ شیر کی طرح ہونا اور اس کا رنگ چیتے کی طرح ہونا اور اس کے دونوں پہلو بلی کی طرح ہونا اور اس کی دم دنبے کی طرح ہونا ، اس کے پاؤں اونٹ کی طرح ہونا اور پروں اور کھروں والا ہونا کوئی ایم بات نہیں ہے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جن میں مفسرین پریشان ہوئے۔ بس ہمیں چاہئے کہ قرآنی نص اور صحیح احادیث پر اکتفاء کریں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ علامات قیامت میں سے ایک یہ ہے کہ اس قسم کا جانور نکلے گا اور یہ اس وقت ہوگا جب توبہ کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ اس وقت جو لوگ ہوں گے ان پر فیصلہ اٹل ہوجائے گا اور اب ان کے لیے توبہ کرنے کا کوئی موقعہ نہ ہوگا۔ بس اب جو لوگ جس حالت اور جس عقیدے پر ہوں گے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا جائے گا۔ اس وقت یہ جانور نکلے گا۔ یہ ان کے ساتھ بات کرے گا جبکہ عموماً جانور بات نہیں کرتے یا ہم لوگ ان کی باتوں کو نہیں سمجھتے۔ لیکن آج سب لوگ اس جانور کی بات سمجھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ وہ معجزہ ہے جسے قیامت سے قبل آنا تھا۔ اس سے قبل وہ آیات الہیہ پر ایمان نہ لاتے تھے۔ نہ ان کی تصدیق کرتے تھے اور نہ قیامت کی تصدیق کرتے تھے یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ سورت نمل میں ایسے مشاہدات و عجائبات کا ذکر ہے مثلاً حشرات الارض کی آپس میں گفتگو ، طیور کی گفتگو ، جنوں کی گفتگو ، اور سلیمان (علیہ السلام) کا ان کی گفتگو سمجھنا۔ اسی ضمن میں دابۃ الارض اور لوگوں کے ساتھ اس کی گفتگو ، مضمون کلام کی ہم آہنگی کا اظہار ہے۔ اس طرح قرآن کریم ہر سورت میں مناظر ، مثالیں اور مضامین و مفاہیم و معانی بھی باہم متناسب اور ہم آہنگ لے کر آتا ہے۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر الغنی) اب علامت دابۃ الارض کے بیان کے بعد ، بات خود مناظر قیامت میں داخل ہوتی ہے۔ ویوم نحشر من ۔۔۔۔۔۔۔ یوزعون (27: 83) ” اور ذرا تصور کرو اس دن کا ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج ان لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے پھر ان کو مرتب کیا جائے گا “۔ تمام لوگوں کو اٹھایا جائے گا۔ اللہ کی مرضی یوں اس لیے ہوئی کہ وہ مکذبین کے موقف کو واضح کر دے۔ یوزعون کے معنی ہیں کہ ان سب کو ایک نظم کے ساتھ چلایا جائے گا ، ان کا اپنا کوئی اختیار و ارادہ نہ ہوگا اور نہ وہ اپنی مرضی سے کسی طرح جاسکیں گے۔ حتی اذا جآء ۔۔۔۔۔۔۔ کنتم تعملون (27: 84) ” یہاں تک کہ جب سب آجائیں گے تو وہ پوچھے گا : تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا حالانکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہ کیا تھا ؟ اگر یہ نہیں تو اور تم کیا کر رہے تھے ؟ “ پہلا سوال تو ان کو شرمندہ کرنے اور ملامت کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ بات تو معلوم و معروف تھی کہ انہوں نے تکذیب کی تھی۔ رہا دوسرا سوال تو وہ ان کی زندگی پر ایک بھرپور طنز ہے۔ اور اس انداز خطاب کے نظائر ہر زبان میں موجود ہوتے ہیں۔ کیا تم نے تکذیب کی یا تم کیا کرتے تھے ؟ کیونکہ بظاہر تمہاری زندگی کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ یعنی تکذیب کے علاوہ تمہاری زندگی کا اور تو کوئی عمل معلوم نہیں ہے جبکہ تمہیں تکذیب نہ کرنا چاہئے تھی۔ ایسے سوالات کا جواب ظاہر ہوتا ہے اس لیے جواب نہیں دیا جاتا اور مکاطب خاموش رہتا ہے۔ گویا اس سوال ہی کی وجہ سے مخاطب گنگ ہوجاتا ہے اور اس سے کوئی جواب بن نہیں پاتا۔ ووقع القول علیھم بما ظلموا فھم لاینطقون (27: 85) ” اور ان کے ظلم کی وجہ سے عذاب کا وعدہ ان پر پورا ہوجائے گا تب وہ کچھ بھی بول نہ سکیں گے “۔ یعنی دنیا میں ظلم اور شرک کرنے کی وجہ سے ان پر فیصلہ برحق ہوگیا اور اب وہ بیکار ، لاجواب اور خاموش کھڑے ہیں اور یہ اس وقت ہوگا جب دابۃ الارض بات کرے گا اور لوگ بات نہ کرسکیں گے۔ قرآن کے معجزاتی انداز کا یہ ایک پہلو ہے کہ وہ کلام کے اندر ایک حسین معنوی تقابل پیدا کرتا ہے کہ جانور بات کر رہا ہے ، اسکے منہ میں زبان ہے اور یہ انسان ہوکر بھی لاکلام ہیں۔ پھر یہاں مشاہد دنیا اور مشاہد قیامت کے درمیان بھی ایک امتزاج اور تقابل ہے۔ کبھی دنیا کا منظر سامنے آتا ہے اور کبھی آخرت کا کیونکہ خروج دابہ دنیا کے آخری ایام میں ہوگا۔ اور یوں فضا میں گہرا تاثر قائم ہوجاتا ہے یہاں پہلے قیامت کا منظر ہے کہ مکذبین وہاں مبہوت اور لاجواب کھڑے ہیں۔ پھر بات دنیا کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اور ان کے وجدان اور شعور کو بیدار کیا جاتا ہے اور دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ذرا اس نظام کائنات پر غور تو کریں کہ الہہ العالمین کس قدر عظیم قدرت والا ہے کہ تمہارے لیے وہ تمام اسباب حیات مہیا کرتا ہے ۔ تمہارے لیے دنیا میں راحت اور آرام کے اسباب مہیا کرتا ہے۔ اس نے پوری کائنات کو اس طرح سازگار بنایا ہے کہ اس کے اندر تمہاری زندگی نہایت خوش و خرم گزر رہی ہے۔ یہ کائنات اور اس کی قوتیں ممد حیات ہیں ، مضر حیات نہیں ہیں۔ وہ حیات انسانی کیلئے معاون ہیں۔ اس کے ساتھ برسرپیکار نہیں ہیں۔ الم یروا انا ۔۔۔۔۔۔۔ لایت لقوم یومنون (27: 86) ” کیا ان کو سجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا ؟ اس میں بہت نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے تھے “۔ رات کا منظر بالکل پرسکون اور خاموش ہے اور دن روشن اور گویا ہے۔ اور یہ منظر اس قابل ہیں کہ انسان کے اندر ایک ایسا شعور اور وجدان پیدا کریں جو اسے اللہ سے ملا دے ۔ جو رات اور دن کو گردش میں لانے والا ہے۔ رات اور دن کو منظر تو دراصل دو کائناتی شواہد ہیں اور ان لوگوں کے لیے کافی ہیں جو ایمان لانا چاہیں لیکن وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر رات نہ ہوتی تو تمام زمانہ دن پر مشتمل ہوتا اور اس کرہ ارض پر حیات ممکن نہ ہوتی اور اسی طرح اگر مسلسل رات ہوتی تو بھی زندگی ممکن نہ ہوتی بلکہ اگر رات اور دن اپنے موجودہ وقت سے دس گنا بھی طویل ہوتے تب بھی اس کرہ ارض پر زندگی محال ہوجاتی۔ سورج تمام نباتات کو جلا ڈالتا۔ اور رات تمام چیزوں کو منجمد کرکے رکھ دیتی۔ لہٰذا گردش لیل و نہار بھی انسانوں کے لیے ذریعہ حیات ہے لیکن لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔ اب گردش لیل و نہار کے ان دونوں دلائل و معجزات کے منظر سے بات چشم زدن میں قیامت کے مناظر کی طرف چلی جاتی ہے۔ ایک لمحہ پہلے انسان اس کرہ ارض پر خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے کہ صور پھونک دیا گیا۔ زمین و آسمانوں کے درمیان ایک بھونچال سا آگیا ۔ تمام مخلوقات الا ماشاء اللہ خوفزدہ ہوگئی۔ پہاڑ اپنی جگہ سے چلنے لگے ، حالانکہ وہ سکون وقرار کی علامت تھے۔ پھر اس دن لوگوں کے انجام سامنے آگئے۔ کسی کا انجام امن و عافیت ہوا اور کسی کا جزع و فزع اور اوندھے منہ آگ میں گرائے جانے تک پہنچا۔ ویوم ینفخ فی الصور۔۔۔۔۔۔۔ الا ما کنتم تعملون (27: 87- 90) ” اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صور پھونکا جائے گا اور ہول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ۔۔ سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہول سے بچانا چاہے گا ۔۔۔ اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہوجائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں ، مگر اس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے ، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہوگا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں گے ، اور جو برائی لیے ہوئے آئے گا ، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔ کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پاسکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو ؟ “ صور وہ نرسنگھا ہے ، جس میں قیامت کے دن پھونکا جائے گا۔ اور یہ وہ آواز ہوگی جس سے زمین و آسمان کی تمام مخلوق خوفزدہ ہوجائے گی۔ الایہ کہ کسی کو اللہ اس سے مامون و محفوظ کر دے۔ کہا گیا ہے کہ شہداء اس سے محفوظ ہوں گے۔ تمام زندہ مخلوق بیہوش ہوجائے گی یا مر جائے گی۔ اس کے بعد دوسری بار پھونکا جائے گا تو تمام لوگ یکدم جی اٹھیں گے۔ وکل اتوہ دخرین (27: 87) ” اور سب کان دبا کر اس کے حضور حاضر ہوں گے “۔ یعنی نہایت مطیع فرمان ، سرخم کیے ہوئے ہوں گے۔ اس خوف و ہراس کے ساتھ ہی افلاک کا موجودہ نظام خلل پذیر ہوجائے گا اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے۔ تمام مدار ختم ہوں گے۔ اور پہاڑ بادلوں کی طرح چل پڑیں گے اور بکھر جائیں گے۔ جس طرح لوگ مشوش ہوں گے اسی طرح پہاڑ بھی مشوش ہوں گے۔ ذی حیات اور جمادات سب میں انتشار ہوگا ، گویا پہاڑ بھی کو فزدہ ہوجائیں گے اور حیران و پریشان دوڑتے پھریں گے۔ اور پریشان و بےقرار ہوں گے۔ زندہ چیزوں کی طرح ان کی حرکت کی نہ سمت ہوگی نہ کوئی قرار ہوگا۔ صنع اللہ الذی اتقن کل شی (27: 88) ” یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا “۔ سبحان اللہ ، اس کی کاریگری کی خوبصورتی اور کمال تو اس کی تمام مصنوعات سے عیاں ہے ۔ اس کا ہر کام صحیح وقت پر ہوتا ہے ، اس میں کوئی نقص ، کوئی بخت و اتفاق ، کوئی بغاوت نہیں ہے نہ اس میں اللہ نے کوئی چیز بھال دی ہے ۔ اس نے جو چیز بھی بنائی ہے اس کے مالہ و ما علیہ کو مکمل کیا۔ ہر چیز بامقصد بنائی۔ ہر چھوٹی اور بڑی چیز ایک اندازے سے رکھی۔ منصوبے اور مقاصد کے مطابق اور اس کے اندر اس قدر گہری حکمت اور دقیق منصوبہ بندی ہے کہ سر چکرا جاتے ہیں۔ مزید تفصیلات دیکھئے سورة الفرقان کی آیت خلق کل شئ کی تفسیر میں۔ انہ خبیر بما تفعلون (27: 88) ” وہ خوب جانتا ہے کہ تم کیا کرتے ہو “۔ اور یہ ہے یوم الحساب ، ان کاموں کا جو تم دنیا میں کرتے رہے ہو۔ اور اس دن کو اس ذات نے مقرر کیا ہے جس کی قدرت کا کرشمہ یہ پوری کائنات ہے۔ اللہ اسے اپنے وقت پر لایا ہے۔ اس میں ایک گھنٹے کی تقدیم و تاخیر ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ہر چیز نے اس کی حکمت کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ عمل اور مکافات عمل کی خدائی اسکیم اپنے انجام کو پہنچے۔ عمل پہلی زندگی میں ہو اور اس کا اجر وثواب دوسری زندگی میں۔ صنع اللہ الذی۔۔۔۔ بما تفعلون (27: 88) ” یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہوگا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم کیا کرتے ہو “۔ اس خوفزدہ کرنے والے ہولناک دن میں ، وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اچھے کام کیے ، نہایت ہی امن و سکون میں ہوں گے۔ اور اس امن و سکون کے علاوہ ان کو جو اجر اور بدلہ ملے گا وہ بہت ہی بڑا ہوگا اور کافی و شافی ہوگا۔ من جآء ۔۔۔۔۔ یومئذ امنون (27: 89) ” جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں گے “۔ قیامت کے دن کے ہول سے پر امن رہنا ہی ہمارے حقیر اعمال کی پوری جزاء ہے۔ اس کے بعد جو انعامات و اکرامات ملیں گے وہ گویا انعام اور پنشن ہے۔ اس لیے کہ اہل تقویٰ دنیا میں بھی اللہ سے ڈرتے رہتے تھے لیکن دنیا میں اللہ کے خوف اور تقویٰ کے ساتھ آخرت کے ہول کو جمع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ بلکہ اللہ نے اہل تقویٰ کو اس سے مستثنیٰ کیا۔ اس دن جو مخلوق بھی زمین و آسمانوں میں ہے وہ اس ہول کا شکار ہوگی ماسوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ نے بچا لیا اور یہ متقین ہوں گے۔ ومن جآء ۔۔۔۔۔۔ فی النار (27: 90) ” اور جو برائی لئے ہوئے آئے گا ایسے سب لوگ اوندھے منہ اگ میں پھینکے جائیں گے “۔ یہ نہایت ہی خوفناک منظر ہے کہ لوگوں کو لا لا کر جہنم کے دھانے سے اوندھے منہ اس کے اندر گرایا جا رہا ہوگا اور اس پر مزید ان کو زجر و توبیخ بھی کی جا رہی ہوگی۔ ھل تجزون الا ما کنتم تعملون (27: 90) ” کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پاسکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو “۔ اس سے قبل دنیا میں انہوں نے ہدایت سے منہ موڑا اور انکار کیا۔ اس لیے یہاں ان کو بطور سزا منہ کے بل آگ میں گرایا جا رہا ہے کیونکہ ان کے سامنے سچائی نہایت ہی واضح ہو کر اور کھل کر آگئی تھی۔ اور اس طرح واضح تھی جس طرح رات اور دن واضح تھے مگر انہوں نے منہ موڑا۔
Top