Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Qasas : 29
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا١ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
فَلَمَّا
: پھر جب
قَضٰى
: پوری کردی
مُوْسَى
: موسیٰ
الْاَجَلَ
: مدت
وَسَارَ
: اور چلا وہ
بِاَهْلِهٖٓ
: ساتھ اپنے گھروالی
اٰنَسَ
: اس نے دیکھی
مِنْ
: سے
جَانِبِ
: طرف
الطُّوْرِ
: کوہ طور
نَارًا
: ایک آگ
قَالَ
: اس نے کہا
لِاَهْلِهِ
: اپنے گھر والوں سے
امْكُثُوْٓا
: تم ٹھہرو
اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ
: بیشک میں نے دیکھی
نَارًا
: آگ
لَّعَلِّيْٓ
: شاید میں
اٰتِيْكُمْ
: میں لاؤں تمہارے لیے
مِّنْهَا
: اس سے
بِخَبَرٍ
: کوئی خبر
اَوْ جَذْوَةٍ
: یا چنگاری
مِّنَ النَّارِ
: آگ سے
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَصْطَلُوْنَ
: آگ تاپو
جب موسیٰ نے مدت پوری کردی اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا ” ٹھہرو ، میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو
فلما قضی موسیٰ الاجل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ومن اتبعکما الغلبون (29- 35) قبل اس کے کہ ہم اس حلقے کے ان دو مناظر پر تفصیلی گفتگو کریں ، ہمیں یہ غور کرنا چاہئے کہ ان دس سالوں کے وقفے میں اللہ نے حضرت موسیٰ کے حوالے سے کیا تدابیر اختیار کیں اور کیا اقدامات کیے۔ اس سفر اور آنے جانے میں کیا حکمت تھی۔ دست قدرت کو یوں منظور تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک ایک قدم آگے بڑھتے جائیں۔ یعنی اس وقت سے لے کر جب وہ شیرخوار بچہ تھے ، ان کی موجودہ پوزیشن تک ان کے ستاھ دست قدرت کا معاملہ کیا رہا۔ ان کو دریا میں پھنکا گیا تاکہ فرعون کے لوگ اسے پکڑلیں۔ ان کو دیکھ کر فرعون کی بیوی ان پر فریفتہ ہوگئی یا کردی گئی کہ وہ عین شاہی محل میں پرورش پائیں ، دشمن کے گھر میں پلیں۔ پھر وہ لوگوں کی غفلت کے وقت شہر میں داخل ہوئے اور ایک آدمی ان کے ہاتھوں مرگیا۔ پھر ان کے پاس فرعون کے حاشیہ نشینوں میں سے ایک شخص کو بھیجا گیا کہ نکلو تمہارے قتل کی تدابیر ہو رہی ہیں ، یہ تائیدی ایزفی مصر اور مدین تک کے صحرائی سفر میں اس کے ساتھ رہی جبکہ ان کے پاس کوئی زادو عتاد نہ تھا۔ اور پھر مدین کے کنویں پر ان کی ملاقات دختران شیخ سے کرادی گئی اور اس بہترین مربی اور بوڑھے کے ساتھ ان کا دس سالہ معاہدہ ہوگیا اور جب وہاں سے واپس ہوئے تو طور پر ان کو عظیم مشن سپرد کیا گیا۔ مشن سپرد کرنے کی ندا سے قبل ان پر خدا کا طویل فضل و کرم ہوتا رہا ، ان کو تلقین ہوتی رہی اور تمام آسمانی قوتیں ان کی تائید میں بڑھتی رہیں۔ اور ان کو زندگی کے مختلف تجربات سے دوچار کیا جاتا رہا۔ مہربانی ، محبت اور راہنمائی کا تجربہ ، حالات کے دباؤ میں آکر انتہائی اقدام کرنے کا تجربہ ، نادم ہونے ، احتیاط کرنے اور غلطی پر استغفار کرنے کا تجربہ۔ ڈر ، تعاقب اور پریشانی کا تجربہ ، تنہائی ، مسافری اور بھوک و افلاس کا تجربہ اور دوسروں کی خدمت کرنے اور بکریوں تک چرانے کا تجربہ اور ان بڑے بڑے تجربوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے روز مردہ کے تجربات ، ولی احساسات ، مختلف قسم کے تصورات و خلجانات ، نئی نئی دریافتیں اور معلومات۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ نے جوان ہوتے ہی ان کو علم و حکمت سے نوازا لیا تھا۔ (ایک شاہزادنے کی حیثیت سے نکال کر یہ تجربات کرائے گئے) ۔ حقیقت یہ ہے کہ منصب رسالت ایک ایسا فریضہ اور ایک ایسی عظیم ذمہ داری ہوتی ہے جس کے متعدد پہلو ہوتے ہیں اور گوناگوں ذمہ داریاں نبی اور رسول پر آن پڑتی ہیں۔ لہٰذا نبی کو علم و فضل ، حکمت و دانائی اور زندگی کے مختلف تجربات اور مختلف لوگوں کی عملی زندگی کا ادراک کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ عملی تجربہ اس لغوی علم و حکمت اور وحی الٰہی سے الگ ہوتا ہے جو ہر نبی کو کرایا جاتا ہے تاکہ نبی کا ضمیر پاک و صاف ہوجائے اور ہدایت نبی کے قلب میں بٹھا دی جائے۔ رسولوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے سوا تمام انبیاء کو سپرد کئے جانے والے مشنوں میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ذمہ داریاں بہت بھاری اور مشکل ذمہ داری تھی۔ ان کو فرعون جیسے سرکش اور جنار وقہار حکمران کے سامنے جانا تھا۔ یہ اپنے دور کے بادشاہوں میں سے بڑا اور مالدار بادشاہ تھا۔ قدیم شاہی سلسلے کا مالک تھا۔ حکومت نہایت مستحکم تھی اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے مصر اس وقت ترقی یافتہ تھا۔ اس نے تمام پسی ہوئی اقوام کو غلام بنا رکھا تھا اور زمین کے اوپر اس کو مقام بلند حاصل تھا۔ پھر حضرت مو سیٰ علیہ اسلام کو ایک ایسی قوم کی آزادی اور ہجرت کے لیے بھیجا گیا تھا جس کے دل و دماغ میں غلا می رچ بس گئی تھی ۔ وہ غلا مانہ زند گی کے عادی ہوگئے تھے اور ان کا ضمیر پو ری طرح بدل گیا تھا ۔ وہ عملا ایک طو یل زما نے تک غلام رہے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غلامی انسانی فطرت کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس کے اندر تعفن اور سڑاند پیدا ہوجاتی ہے اور اس قوم کے احساسات سے گندگی اور تعفن اور سڑاند کا احساس ہی جاتا رہتا ہے ۔ بھلا ئی ، خیر اور جمال اور برتری اس کو راس ہی نہیں آتی ۔ اس طرح کی بگڑی ہو ئی قوم کو اٹھانا معنی دارو۔ آپ کو ایسی قوم کی طرف بھیجا گیا جو قویم زمانہ سے اسلامی نظریہ کی حامل تھی لیکن اس کے اندر نظریاتی انحراف پیدا ہوگیا تھا۔ ان کے دل دماغ میں اس کی اصل حقیقی صورت وہ نہ رہی تھی ۔ نہ یہ قوم پرانے اسلامی عقیدہ اور شریعت پر قائم تھی اور نہ جدید عقیدے کو صحیح طرح قبول کر رہی تھی ۔ اس قسم کے لوگوں کی اصلاح کرنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے ۔ ان کے اندر پائے جانے والی کجی کو درست کرنا ، ان کے انحراف کو سیدھا کرنا اور ان کے اصل عقائد کے اوپر سے خرافات کی گہری تہوں کو ہٹانا اس مہم کی مشکل ترین باتیں تھیں۔ مختصر اً یہ کہ حضرت موسیٰ نے بالکل ایک نئی امت کی تعمیر کرنا تھی ۔ بالکل ننے سرے سے پہلی مرتبہ بنی اسرائیل کو ایک خاص قوم ، ایک خاص نظام کی حامل قوم اور ایک خاص رسالت کی حامل امت بنانا تھا اور ظاہر ہے کہ کسی قوم اور امت کی تعمیر ایک نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے حضرت مو سیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا بار بار دہرایا ہے ۔ اس لئے کہ ایک نظریہ کی اساس پر کسی نئی امت کی تعمیر کے سلسلے میں حضرت مو سیٰ (علیہ السلام) کی زندگی ایک مخصوص نمونہ تھی ۔ ایسے عظیم کام کی راہ میں داخلی اور خارجی مشکلات ہوتی ہیں ۔ ایسی ہمہ گیر دعوتوں میں کجی بھی پیدا ہوتی رہتی ہے ۔ وہ مخصوص شکل بھی اختیار کرلیتی ہے اور اسے بہت سے تجربات سے بھی گزارنا پڑتا ہے ۔ اور راستے میں مشکلات بھی آتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین کی بددیانہ زندگی سے کیوں گزارا گیا تو یہ اس لیے تاکہ وہ عوام الناس کی پر مشقت زندگی کے نشیب و فراز بھی جان لیں اور براہ راست تجربہ بھی حاصل کرلیں ۔ شاہی محلات کی زندگی کی ایک مخصوص فضا ہوتی ہے ، مخصوص آداب اور پروٹوکول ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی درجے کا سلیم الفطرت ، پاک طینت اور صاحب علم و فضل کیوں نہ ہو ، محلات کی زندگی کی پرچھائیں اس پر ضرور پڑتی ہے۔ اور اس کے کچھ نہ کچھ اثرات ضرور رہ جاتے ہیں جہاں تک رسالت کا تعلق ہے اس میں ایک رسول کا واسطہ غنی سے بھی پڑتا ہے اور فقیر سے بھی۔ امت میں مالدار بھی ہوتے ہیں اور فقراء بھی ہوتے ہیں۔ اس میں صاف ستھرے بھی ہوتے ہیں اور میل کچیل والے بھی ہوتے ہیں ، مہذب بھی ہوتے ہیں اور وحشی بھی ہوتے ہیں۔ پاک فطرت بھی ہوتے ہیں اور خبیث الفطرت بھی ہوتے ہیں۔ اچھئ بھی اور برے بھی ، قوی بھی اور ضعیف بھی۔ صابر بھی اور جزع و فزع کرنے والے بھی۔ غرض امت میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور نبی نے سب کی اصلاح کرنی ہوتی ہے۔ فقراء لوگوں کے کھانے پینے ، چلنے پھرنے اور لباس کی الگ عادات ہوتی ہیں۔ وہ معاملات کو اپنے ذہن کے مطابق سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے زندگی کا ایک مخصوص تصور ہوتا ہے ، ان کی بات چیت ان کی حرکات و سکنات ، ان کا کلام اور ان کے شعور کا اپنا مخصوص انداز ہوتا ہے۔ یہ عوامی عادات ان لوگوں پر بہت بھاری ہوتی ہیں ، جنہوں نے محلات میں تربیت پائی ہوئی ہوتی ہے۔ اونچے محلات کے لوگ ، ان کے عوامی انداز کو دیکھنے کے روداد بھی نہیں ہوتے ، چہ جائیکہ وہ انہیں برداشت کریں اور ان کا علاج کریں۔ اگرچہ ان عامی لوگوں کے دل بھلائی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور وہ اصلاح پذیر ہوتے ہیں کیونکہ ان کا ظاہری ربگ ڈھنگ ان کی ظاہری عادات ، اونچے محلات والے کو نہیں جچتے۔ ایک رسول کو بعض اوقات مشتقوں ، تنہائیوں اور تنگ دستیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو بڑے بڑے محالات میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں ، ان کے اندر قربانی دینے کا بےپناہ جذبہ کیوں نہ ہو ، وہ بہت طویل عرصے تک تنگ دستی ، محرومی اور عملی زندگی میں مشقتوں کو برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ وہ محلات کے اندر پر تعیش ، فراوانی اور آرام طلبی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو محلات کے اس اعلیٰ معیار کی زندگی سے ذرا نیچے لا کر عوامی زندگی کی سطح تک اتارا جائے۔ انہیں فرواہوں کی سوسائٹی کے اندر ڈال دیا جائے اور خوف ، تعاقب اور پکڑے جانے کے ڈر سے فرار کے بعد ایک چرواہے کی زندگی گزارنے کا عادی بنایا جائے جہاں انہیں صرف کھانا اور ٹھکانا ملتا ہے تاکہ شہزادوں کے مزاج میں غربت اور غرباء سے جو کچھاؤ ہوتا ہے وہ دور ہوجائے۔ چرواہوں کی عادات ، ان کے اخلاق ، ان کی درشی اور ان کی سادگی کے بارے میں شہزادوں کے اندر جو ناگواری پائی جاتی ہے وہ دور ہوجائے۔ ان کی جہالت ، غربت ، بدحالی اور مجموعی طور طریقوں سے حضرت موسیٰ شہزادہ اپنے آپ کو بلند اور دور نہ سمجھیں ، اور اس لئے کہ ان کو عوامی زندگی کے گہرے سمندروں کے اندر ڈال دیا جائے جبکہ پہلے وہ انسانی زندگی کے ایک محدود دھادے کے اندر تیرتے رہے تھے تاکہ آنے والی داعیانہ زندگی کے لیے وہ اچھی طرح تیار ہوجائیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت نے یہ تجربے مکمل کرلیے اور وہ عوامی زندگی کے نشیب و فراز سے خوب واقف ہوگئے اور یہ تجربات انہیں ایک غریب الدیار اجنبی کی حیثیت سے دوسرے علاقے میں رہ کر ہوئے تو دست قدرت نے انہیں پھر اپنی جائے پیدائش کی طرف روانہ کیا۔ جہاں ان کے اہل و عیال اور ان کی قوم رہتی تھی۔ اور جہاں انہوں نے مشکل ترین فریضہ رسالت ادا کرنا تھا اب وہ اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ اس سے وہ بھاگے تھے اور بالکل یکہ و تنہا بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس ایک ہی راستے پر وہ کیوں آئے اور واپس ہوئے ؟ یہ دراصل ایک جنگی مشق تھی انہیں اس راستے کے نشیب و فراز اور راہ و گھاٹ سے خبردار کرنا مطلوب تھا۔ کیونکہ قدرت نے طے کر رکھا تھا کہ عنقریب اسی راستے سے موسیٰ نے اپنی قوم کی قیادت کرتے ہوئے سینائی میں داخل ہونا ہے۔ یہ دراصل ہر ادل دستے اور رہبر کی مشق تھی تاکہ حضرت موسیٰ کو خود اپنے سوا کسی اور راہنما کی ضرورت نہ پڑے ، راستہ بتلانے والے کی بھی۔ کیونکہ ان کی قوم ایسی حالت میں جاگری تھی کہ انہیں چھوٹے بڑے سب کاموں میں راہنمائی کی ضرورت تھی اس لئے کہ ذلت ، غلامی اور ماتحتی نے انہیں پوری طرح بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے اندر کوئی تدبر اور کوئی سوچ نہ رہی تھی۔ اب معلوم ہوگیا کہ قدرت الٰہیہ کس طرح اپنی نظروں کے نیچے حضرت موسیٰ کی تربیت کر رہی تھی اور ان کا فریضہ رسالت کی ادائیگی کیلئے کس طرح اچھی تربیت دی گئی۔ اب ذرا دیکھئے کہ حضرت موسیٰ نے واپسی کا سفر کس طرح طے کیا فلما قضی موسیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ لعلکم تصطلون (28: 29) ” جب موسیٰ نے مدت پوری کردی اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا ” ٹھہرو ، میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو “۔ یہاں یہ ایک اہم سوال ہے کہ وہ کیا سوچ تھی جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر لوٹنے پر آمادہ کیا۔ مدین میں انہوں نے عرصہ کار پورا کردیا۔ اب وہ مصر لوٹ رہے ہیں حالانکہ وہ مصر سے نہایت ہی خوف کی حالت میں نکلے تھے۔ ان کو تعاقب کا ڈر تھا۔ وہ یوں واپس ہو رہے تھے کہ شاید وہ اس خطرے کو بھول گئے ہیں جو مصر میں اب بھی ان کو درپیش ہے۔ وہاں انہوں نے ایک آدمی کو قتل کیا ہوا ہے ، فرعون ابھی زندگہ ہے جو اپنے سرداروں کے ساتھ آپ کے قتل کا مشاورت کر رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ عالم بالا کی اپنی سکیم کے مطابق ہو رہا ہے۔ اس بار شاید اہل و عیال اور قوم اور وطن کیلئے فطری مبلان انہیں واپسی پر مجبور کر رہا ہے اور ان کے دل سے وہ خطرات اب محو ہوگئے جن کی بنا پر اس نے یکہ و تنہا یہاں سے فرار اختیار کیا تھا۔ اور یہ دست قدرت اس لیے کر رہا ہے کہ وہ اس مہم اور منصب کیلئے تیار ہوجائیں جس کیلئے اللہ نے ان کو اول روز پیدا کیا ہے بہرحال وجہ جو بھی ہو ، حضرت موسیٰ واپس ہو رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے اہل و عیال بھی ہیں۔ رات کا وقت ہے ، سخت اندھیرا ہے۔ یہ قافلہ راستے سے بھٹک گیا ہے۔ سردیوں کا موسم ہے۔ اس لیے کہ آگ دیکھ کر وہ وہاں سے آگ لانے کے لیے جا رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ آگ کے پاس جو کوئی ہوگا یا تو راستہ بتا دے گا ورنہ وہ ایک انگارہ لے آئیں گے تاکہ تاب سکیں۔ یہ اس حصے کا پہلا منظر ہے۔ دوسرا منظر نہایت غیر متوقع ہے۔ فلما اتھا نودی ۔۔۔۔۔۔ من الشجرۃ (28: 30) ” وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا “۔ حضرت موسیٰ تو دیکھ رہے ہیں کہ آگ ہے اور یہ وادی طور میں ان کے دائیں جانب ہے۔ اور یہ جگہ نہایت ہی متبرک ہے ، اور یہ وادی بھی آج ہی متبرک ہو رہی ہے ، پوری کائنات لمحہ بھی کے لیے خاموش ہے اور اس کے اندر عالم بالا اور رب ذوالجلال کی یہ آواز گونج رہی ہے ، بظاہر کانوں پر وہ ایک درخت مبارک سے آرہی ہے اور شاید یہ اس علاقے میں واحد درخت ہے۔ ان یموسی انی انا اللہ رب العالمین (28: 30) ” اے موسیٰ ! میں اللہ ہوں سارے جہانوں کا مالک “۔ حضرت موسیٰ نے اس آواز کو براہ راست سنا۔ اس گہری اور خاموش وادی میں وہ اکیلے کھڑے تھے۔ نہایت ہی تاریک اور خاموش رات میں۔ یہ آواز پوری کائنات بھی ہر طرف سے اس آواز کو سن رہی تھی ، زمین اور آسمانوں کی دوریوں اور بلندیوں میں یہ آواز گونج رہی تھی۔ حضرت موسیٰ نے اس آواز کو پایا ، کس ذریعہ سے پایا ، کس طرح سے سنا ، یہ ہمیں معلوم نہیں۔ البتہ حضرت موسیٰ کی ذات اور ان ماحول اور پوری کائنات اس سے گونج رہی تھی اور بھری ہوئی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے رب کائنات کی آواز کو پایا اور اس کے متحمل ہوگئے ، کیونکہ ان کو اس کے لیے تیار کرلیا گیا تھا۔ اس کائنات کے ۔۔ نے اس آواز کو ریکارڈ کرلیا ، جہاں اس آواز کو حضرت موسیٰ نے پایا ، وہ جگہ بابرکت ہوگئی۔ یہ جگہ اب مکرم ہوگئی اور حضرت موسیٰ اب نہایت ہی بابرکت اور مکرم جگہ میں کھڑے تھے اور یہ آواز ابھی ختم نہیں ہوئی مکاملہ جاری ہے۔ الق عصاک (28: 31) ” پھینک دے اپنی لاٹھی “۔ حضرت موسیٰ نے باری تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے فوراً لاٹھی پھینک دی۔ دیکھتے کیا ہیں ؟ وہ تو اب ان کی وہ لاٹھی نہیں ہے جو ان کے ساتھ ایک عرصہ تک رہی اور جس کو وہ یقیناً جانتے تھے کہ یہ ایک عصا ہے۔ عصا نہیں اب تو وہ ایک سانپ ہے جو زمین پر رینگ رہا ہے۔ بڑی تیزی سے ادھر ادھر جا رہا ہے اور یہ اس طرح کروٹیں بدل رہا ہے جس طرح چھوٹے چھوٹے سانپ بدلتے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی بڑا سانپ نظر آتا ہے۔ فلما راھا ۔۔۔۔۔۔۔ ولم یعقب (28: 31) ” جو موسیٰ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے ، تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا “۔ اس لیے کہ یہ نہایت ہی غیر متوقع صورت حال تھی ، اس کے لیے وہ ذہنا تیار نہ تھے ، پھر آپ کا مزاج بھی انفعالی تھا۔ آپ پر ہر صورت حال کا جلد اثر ہوجاتا تھا۔ آپ اس طرح بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ یہ سانپ ان کی طرف بڑھ بھی رہا ہے یا نہیں تاکہ وہ معلوم کرتے کہ یہ عجیب معجزہ ہے اور اس پر کچھ غور کرتے۔ جو لوگ بھی جلد متاثر ہوجاتے ہیں ان کی روش اسی طرح ہوتی ہے۔ ندائے ربانی جاری ہے۔ یموسی اقبل ولا تخف انک من الامنین (28: 31) ” موسیٰ پلٹ آ اور خوف نہ کر تو بالکل محفوظ ہے “۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے خوف اور امن کے یہ تجربے کوئی نئے نہ تھے۔ ان کی زندگی کے مختلف مراحل میں خوف اور امن کے چکروں پر مشتمل ہیں۔ خوف اور امن ان کی پوری زندگی کے موسم ہیں۔ آغاز سے انجام تک اور موسیٰ (علیہ السلام) کا یوں متاثر ہوجانا بھی حکمت خداوندی پر مبنی اور مطلوب و مقصود تھا۔ ان کی زندگی میں اسی طرح مقدر تھا کیونکہ حضرت موسیٰ کی زندگی میں یہ زیر و بم اور یہ اضطراب اور یہ تلاطم بنی اسرائیل کی جامد ، تقلیدی اور رکی ہوئی زندگی کے بالمقابل قصداً پیدا کیا گیا تھا ۔ یہ قدرت کی تقدیر تھی اور قدرت کی گہری حکمت اور تدبیر پر مبنی تھی۔ اقبل ولا تخف انک من الامنین (28: 31) ” واپس آجاؤ “ اور ڈرو نہیں تم محفوظ ہو “۔ کس طرح وہ محفوظ نہ ہوگا جسے دست قدرت آگے بڑھا رہا ہو اور جس کی نگرانی اللہ تعالیٰ خود کر رہا ہو۔ ابھی مکالمہ جاری ہے۔ اسلک یدل فی جیبک تخرج بیضآء من غیر سوء (28: 32) ” اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال ، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے “۔ حضرت موسیٰ نے حکم کی اطاعت فرمائی اور اپنے ہاتھ کو گریبان میں ڈالا اور نکالا۔ یہ ان کے لئے اسی وقت دوسرا غیر متوقع منظر تھا کہ ہاتھ سفید اور چمکدار ہے اور بغیر کسی بیماری کے ایسا ہے حالانکہ پہلے وہ گندم گوں تھا۔ ہاتھ کے سفید ہونے میں اشارہ اس طرح تھا کہ حق اور سچائی واضح اور صاف اور روشن دن کی طرح ہے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) جذباتی اور متاثر ہونے والی شخصیت نے اپنا کام دکھایا۔ وہ ان مناظر ، غیر متوقع مناظر کو دیکھ کر ڈر گئے اور کانپنے لگے۔ ایک بار پھر ربانی ہدایت براہ راست آتی ہے۔ حکم ہوتا کہ اپنے ہاتھوں کو اپنے بازوؤں کو بھینچ لو ، اس طرح تمہارے دل کی دھڑکن کم ہوگی اور تمہیں پورا اطمینان ہوجائے گا۔ واضمم الیک جناحک من الرھب (28: 32) ” اور خوف سے بچنے کیلئے اپنا بازو بھینچ لو “۔ گویا ان کے ہاتھ ان کا پر ہے جسے وہ سینے کے ساتھ ملا رہے ہیں جس طرح پرندہ مطمئن ہوکر پروں کو جسم سے جوڑ لیتا ہے۔ جب پرندہ پروں کے ساتھ پھڑ پھڑاتا ہے تو اس کی کیفیات کے ساتھ مشابہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم یہاں اس مفہوم کی ایسی ہی تصویر کشی کرتا ہے : اب موسیٰ (علیہ السلام) باری تعالیٰ کی طرف سے ہدایات پاچکے ہیں اور جو مشاہدات ان کو کرائے گئے وہ مشاہدہ دہ کرچکے ہیں۔ یہ دو نشانیاں اور معجزات تو وہ خود دیکھ چکے ہیں۔ پہلے وہ خود بھی خائف ہوگئے اور ان کا دل دھڑکنے لگا۔ پھر ان کو اطمینان دیا گیا۔ اب ان کو وہ اصل مشن سپرد کیا جاتا ہے جس کے لیے ان کو ابتدا سے آغاز پیدائش سے تربیت دی جا رہی ہے۔ فذلک برھانن ۔۔۔۔۔۔ قوما فسقین (28: 32) ” یہ دو روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے ، وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں “۔ یہ پیغام گویا فرعون اور اس کے سرداروں کے لیے تھا۔ اور یہ اس وعدے کا ایفا ہوا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ” ہم اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے مرسلین میں سے بنانے والے ہیں “۔ اور یہ پختہ وعدہ تھا ، کئی سال گزر گئے کہ یہ طے ہوا تھا۔ لیکن یہ اللہ کا وعدہ تھا اور اللہ وعدہ خلافی نہیں فرمایا کرتا۔ وہ تو سب سے سچی بات کرنے والا ہے۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یاد آتا ہے کہ انہوں نے تو ان کا ایک آدمی قتل کیا ہے اور یہ کہ وہ ان سے اس وقت چلے گئے جب گرفتاری کا خطرہ تھا۔ اور اس لیے بھاگ گئے تھے کہ انہوں نے انہیں قتل کرنے کے مشورے شروع کر دئیے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا رب تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ شروع تھا اور یہ عظیم اعزاز تھا جو انہیں بخشا گیا۔ پھر ان کو دو عظیم معجزات کا اعزاز بھی بخشا گیا۔ اور پھر اپنی نگرانی میں ان کی تربیت فرمائی۔ لہٰذا انہوں نے اپنے مشن کے سلسلے میں ایک عملی دشواری کی طرف سے خدشے کا اظہار کیا۔ یہ نہ ہو کہ وہ لوگ چھوٹتے ہی انہیں قتل کردیں اور دعوت کا سلسلہ ہی کٹ جائے۔ قال رب ۔۔۔۔۔۔ ان یقتلون (28: 33) ” موسیٰ نے عرض کیا میرے آقا میں تو ان کا ایک آدمی قتل کرچکا ہوں اور ڈرتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے “۔ موسیٰ (علیہ السلام) منصب نبوت قبول کرنے سے معذرت نہ کر رہے تھے۔ نہ ان کا مقصد یہ تھا کہ پیچھے ہٹ جائیں یا منہ موڑلیں اور نافرمانی کریں بلکہ وہ یقین دہانی چاہئے تھے اور یہ اطمینان چاہتے تھے کہ دعوت کو جاری رہنا چاہئے۔ اور اگر وہ قتل ہوگئے جس طرح خدشہ ہے تو سلسلہ شروع ہی سے ختم ہوجائے گا۔ یہ ان کی جانب سے ایک مناب بات بھی ہے حالانکہ وہ قوی اور امین تھے۔ ڈرنے والے نہ تھے۔ واخی ھرون ۔۔۔۔۔۔ انی اخاف ان یکذبون (28: 34) ” اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے ، اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے۔ مجھے اندیشہ ہت کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے “۔ ہارون مجھ سے زیادہ فصیح وبلیغ مقرر ہے اور دعوت کو اچھی طرح پیش کرسکتا ہے ، اسے میرے لیے تائید کنندہ کے طور پر بھیج دے تاکہ وہ میرے دعوائے رسالت کی تائید کرے اور اگر وہ مجھے قتل ہی کردیں تو میرا خلیفہ ہو۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے اور درخواست قبول کرلی جاتی ہے۔ قال سنشد عضدک ۔۔۔۔۔۔ اتبعکما الغلبون (28: 35) ” فرمایا ! ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سعادت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہوگا “۔ جو واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں ان میں قدرت الہیہ کی معجزانہ قوتیں زیادہ واضح طور پر حضرت موسیٰ کے ساتھ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کامیابی اور غلبہ کے پیچھے صرف متعارف اسباب ہی نظر نہ آئیں بلکہ اس پر عالم بالا کی مشیت کا رنگ غالب ہوتا کہ لوگوں کے نظریات کے اندر محض مادی اسباب کے علاوہ آسمانی قوتوں کی مشیت بھی واضح طور پر اہمیت اختیار کرلے۔ لوگوں کو اللہ پر ایمان حاصل ہو اور وہ اللہ پر توکل کریں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں۔ یہ خوبصورت اور عظیم منظر ختم ہوجاتا ہے اور زمان و مکان کے فاصلے لپیٹ دئیے جاتے ہیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) اب دربار فرعون میں ہیں۔ اللہ کی واضح آیات لیے ہوئے ہیں۔ اب ہدایت و ضلالت آمنے سامنے ہیں۔ ان کے درمیان سخت مکالمہ شروع ہے۔ اور اس دنیا میں حق و باطل کی کشمکش کا فیصلہ یوں ہوتا ہے کہ باطل اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق ہوجاتا ہے۔ اور آخرت میں لازماً وہ لعنت کا مستحق ہوگا۔
Top