Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
اے ایمان والو ! اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے ۔
اس کرہ ارض پر اس امت کو اس لئے اٹھایا گیا تھا کہ وہ اس زمین پر صرف اسلامی نظام زندگی کے برپا کرنے کے لئے اپنے لئے راہ متعین کرے ۔ یہ ایک منفرد ‘ ممتاز اور نمایاں امت ہے ۔ اس کا وجود اسلامی نظام زندگی سے پھوٹا ہے ‘ تاکہ وہ حیات انسانی کے اندر وہ رول ادا کرے جو اس کے سوا کوئی نہیں ادا کرتا ۔ یہ امت اس لئے برپا کی گئی ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کا اقرار کرے اور اسے عملی طور پر نافذ کرے ‘ اور اس نظام کا نشان منزل نظر آرہا ہو ۔ اس میں قرآن وسنت کی نصوص اور احکام عملاً زندگیوں میں چلتے پھرتے نظر آئیں ‘ اسلامی نصوص انسانی شعور ‘ انسانی اخلاق اور انسانی طرز عمل اور انسانی روابط عملاً نظر آئیں۔ امت مسلمہ کے برپا کرنے کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا ‘ اس کی راہ اس وقت تک متعین نہیں ہوسکتی اور وہ انسانی زندگی میں یہ چمکدار اور خوبصورت اور ممتاز عملی زندگی اس وقت تک وجود میں نہیں لاسکتی جب تک وہ تمام ہدایات اللہ جل شانہٗ سے اخذ نہ کرے اور انسانی قیادت اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے اصول تسلیم نہ کرے ۔ تمام انسانوں کی راہنمائی کا انکار نہ کردے ‘ تمام انسانی اطاعتوں کو ترک نہ کردے اور تمام انسانوں کی پیروی ترک نہ کردے ۔ اسے یا تو یہ تمام امور سرانجام دینے ہوں گے اور یا پھر اسے کفر ‘ گمراہی اور راہ راست سے انحراف قبول کرنا ہوگا۔ یہ وہ اصول ہے جس کی تاکید قرآن مجید بتکرار کرتا ہے ‘ اور مختلف مواقع پر کرتا ہے ۔ اور یہی وہ اصول ہے جس پر جماعت مسلمہ کا شعور ‘ اس کی سوچ ‘ اس کے اخلاق پروان چڑھے ہیں جہاں بھی اسے موقعہ ملے ۔ اب مواقع میں سے ایک موقعہ یہ تھا ‘ جس میں اہل کتاب رسول اکرم ﷺ کے ساتھ مباحثہ کررہے تھے اور تحریک اسلامی کو مدینہ میں اہل کتاب کے مکروفریب ‘ خفیہ سازشوں اور عداوتوں کا مقابلہ کرنا پڑرہا تھا ۔ ہاں یہ ہدایات بہر حال مدینہ طیبہ کے ان مخصوص حالات کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ۔ یہ ہدایات امت مسلمہ کے لئے دائمی ہدایات ہیں ۔ ہر زمانے اور ہر دور اور ہرنسل کے لئے یہی ہدایات ہیں ۔ ہر زمانے اور ہر دور اور ہر نسل کے لئے یہی ہدایات ہیں ۔ اس لئے کہ امت مسلمہ کا یہ اصول حیات ہے اور یہی اس کا مقصد وجود ہے ۔ اس امت کو اس لئے برپا کیا گیا ہے کہ وہ پوری انسانیت کی قیادت کرے ۔ اب یہ کس منطق کی رو سے جائز ہے کہ وہ جاہلیت کی پیروی کرے حالانکہ اس کا مقصد وجود ہی یہ ہے کہ وہ جاہلیت کا قلع قمع کرے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور انسانوں کا رشتہ اللہ سے جوڑے ۔ انسانوں کی قیادت اسلامی نظام زندگی کے مطابق کرے ۔ اور جب یہ امت مسلمہ قیادت کے مقام سے گرجائے تو متصور ہوگا کہ امت مسلمہ کا وجود نہیں ہے ۔ اور اگر اس کا کوئی وجود ہے تو وہ بھی بےمقصد وجود ہے ۔ اسے تو اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ وہ ایک صحیح تصورحیات کے مطابق انسانیت کی قیادت کرے ۔ اس کا عقیدہ بالکل درست ہو ‘ اس کا شعور استوار ہو ‘ اس کے اخلاق معیاری ہوں ‘ اس کا نظام مستحکم ہو اور اس کی تنظیم مضبوط ہو ۔ صرف ایسے حالات ہی میں انسانی عقل نشو ونما پاسکتی ہے اور اس کے لئے مزید راہیں میسر ہوسکتی ہیں ۔ اور وہ اس پوری کائنات سے اچھی طرح متعارف ہوسکتی ہے ۔ وہ اس کائنات کے بھیدوں سے آگاہ ہوسکتی ہے اور وہ اس کائنات کی بھلائی کے لئے استعمال میں لانے کا حکم دیتی ہے ۔ وہ ان قوتوں ‘ اس کے ذخیروں کو مسخر کرسکتی ہے ۔ لیکن امت کی قیادت عالیہ جو تسخیر کائنات کا حکم دیتی ہے ‘ وہ ان تمام قوتوں کو انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال میں لانے کا حکم دیتی ہے ۔ وہ ان قوتوں کو مسخر کرکے انہیں اس کائنات کی تباہی اور اس کائنات کی بربادی کے لئے کام میں نہیں لاتی ۔ اور نہ وہ ان قدرتی قوتوں کو اس سے دریافت کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرے اور شہوات حیوانیہ میں گم ہوجائے ۔ تسخیر کائنات کا مقصد صرف یہ ہے کہ امت اپنے ایمان باللہ کو مضبوط کرے ‘ یہ تمسخر اللہ کی ہدایات کے مطابق ہو ‘ اور اس معاملے میں وہ اللہ کے سوا کسی اور منبع سے ہدایات نہ لے ۔ اس سبق میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ وہ غیر اللہ کی اتباع کرے ۔ اور یہ بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح صحیح حالات پیدا کرسکتی ہے ۔ اور کس طرح اپنے آپ کو بچاسکتی ہے ۔ چناچہ پہلا حکم یہ دیا جاتا ہے کہ امت مسلمہ اہل کتاب کی پیروی اور اطاعت نہ کرے ‘ اگر وہ ایسا کرے گی تو اہل کتاب اسے کفر کی طرف لے جائیں گے اور اس کے سوا کوئی دوسری بات نہ ہوگی ۔ اہل کتاب کی اطاعت کرنا ‘ اور ان سے ہدایات اخذ کرنا ‘ ان کے اوضاع واطوار کا نقل کرنا ‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ امت مسلمہ نے داخلی طور پر شکست قبول کرلی ہے اور اس نے اپنے اس مقام قیادت سے دست برداری کرلی ہے ۔ نیز اس سے اسلامی زندگی کی یہ صلاحیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے کہ وہ ہمارے دور میں زندگی کی راہنمائی ‘ اس کی تنظیم ‘ اس کی ترقی اور نشوونما کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اور یہ بات دراصل کفر ‘ خفی ہے جو نفس انسانی کے اندر سرایت کرجاتا ہے ۔ یہ کفر غیر شعوری ہوتا ہے اور انسان اس کا خطرہ بھی محسوس نہیں کرتا ۔ یہ اسلام کے نقطہ نظر سے بات تھی ‘ رہی یہ بات کہ اہل کتاب کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ تو وہ دنیا میں سب سے زیادہ جس امر کے حریص ہیں وہ یہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کو اپنے عقیدے سے پھیر دیں ۔ اس لئے امت مسلمہ کے لئے یہ عقیدہ صخرہ نجات ہے ۔ وہ اس کے لئے ایک دفاعی لائن ہے اور اس کی قوت اور شوکت کا اصل منبع ہے ۔ اور اس امت کے دشمنوں کو اس راز کا بخوبی علم ہے ۔ اس سے قبل بھی انہیں اس کا علم تھا اور آج بھی انہیں اس کا علم ہے ۔ اور وہ اس امت کو اپنے عقائد ونظریات سے دور کرنے کے لئے ہر مکر اور ہر حیلہ کام میں لاتے ہیں ۔ وہ اس کام میں اپنی پوری توانائی اور اپنی پوری قوت صرف کرتے ہیں ۔ اور جب وہ اس امت کا مقابلہ علی الاعلان نہیں کرسکتے تو وہ اس کے خلاف خفیہ مکر و فریب کام میں لاتے ہیں اور جب یہ لوگ تنہا اس کام کو سرانجام دینے کے اہل نہیں رہتے تو پھر وہ اس کام میں منافقین سے امداد لیتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ اپنی افواج منظم کرکے اسلامی قلعے کی دیواروں میں اندر سے نقب لگاتے ہیں اور لوگوں کو اسلام سے دور کرتے ہیں ۔ اور ان کی نظروں میں ان نظامہائے زندگی کو حسین بناتے ہیں جو اسلامی نظام کے خلاف ہیں ۔ ان کے لئے ایسے طریقے ایجاد کرتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں اور اس امت پر ایسی قیادت مسلط کرتے ہیں جو اسلامی قیادت نہیں ہوتی۔ جب اہل کتاب دیکھتے ہیں کہ اہل اسلام میں سے انہیں ایسے افرادمل رہے ہیں جو ان کے تابع ‘ ان کے پیروکار اور ان کی بات پر اچھی طرح کان دھرنے والے ہیں تو وہ ان لوگوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور انہیں ان مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں جن کے حصول کے لئے ان کی نیندیں حرام ہیں تو وہ ان کو مقام قیادت دیں گے اور لوگوں کو ان کے پیچھے لگادیں گے تاکہ یہ ایجنٹ پوری امت کو کفر و ضلال کے راستے پر ڈال دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ کن اور دوتوک بات آتی ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ ” اے ایمان لانے والو ! اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ “ رسول اکرم ﷺ کے دور میں اہل اسلام اس امر سے زیادہ کسی اور چیز سے نہ گھبراتے تھے کہ وہ اسلام سے پلٹ کر پھر کفر کی طرف چلے جائیں ۔ اور جنت کے مستحق ہوکر پھر جہنم کی طرف چلے جائیں ۔ اور یہی صفت ہر سچے مومن کی ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورت میں یہ ڈراوا ایسا تازیانہ ہے جس سے ضمیر گرم ہوگا۔ اس سے ڈرانے والے کی مشفق آواز سننے کے لئے سامع اچھی طرح آمادہ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈراوا اور یاد دہانی کے مضامین مسلسل جاری ہیں ۔ کیا برامنکر حق ہے وہ شخص جو اہل ایمان کو ایمان لانے کے بعد بدراہ کرتا ہے ۔ ایسے حالات میں کہ ان پر آیات الٰہی مسلسل پڑھی جارہی ہیں اور رسول اللہ ان میں موجود ہیں اور وہ تمام محرکات موجود ہیں جو ایمان لانے کے باعث ہیں اور دعوت اسلامی مسلسل دی جارہی ہو اور کفر و ایمان کے دورا ہے پر نور ایمان چھایا ہوا ہے۔
Top