Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
تمہارے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقعہ باقی ہے جبکہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں ۔ اور تمہارے درمیان اس کا رسول ہے ؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا۔
ہاں ‘ ایسے حالات میں ‘ ایمان لانے کے بعد کسی مومن کا کافر ہوجانا بیشک ایک عظیم امر ہے ‘ اور جب رسول اللہ ﷺ نے اپنا وقت پورا کرلیا اور اپنے رفیق الاعلیٰ کے ساتھ جاملے تو اس صورت میں بھی آیات الٰہی موجود ہیں ۔ اور سنت رسول ﷺ باقی ہے ۔ آج ہم بھی ان آیات کے اسی طرح مخاطب ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے لوگ مخاطب تھے ۔ اور آج بھی کامیابی کی راہ واضح ہے اور کامیابی کے جھنڈے بلند ہیں ۔ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ……………” اور جو اللہ کا دامن مضبوطی سے تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا۔ “ ہاں ‘ اللہ کا دامن تھام لینے میں ہی نجات ہے۔ اللہ جل شانہٗ موجود ہیں ۔ وہ زندہ اور قیوم ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام پر ‘ اسلامی نظریہ حیات اسلامی عقائد اور اسلامی نظام زندگی کے سلسلے میں بہت زیادہ سختی فرماتے تھے ۔ جبکہ زندگی کے خالص عملی اور تجربی امور میں آپ انہیں کھلا چھوڑتے تھے ، یعنی ان امور میں جن میں حقیقت کا دارومدار تجربے پر موقوف ہوتا ہے مثلاً طریقہائے زراعت ، طریقہائے جنگ و قتال اور ایسے ہی دوسرے امور جن کا تعلق خالص علمی اور تجرباتی امور سے ہوتا ہے اور جس میدان میں اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یا جن کا تعلق اسلامی نظام زندگی کے ساتھ نہیں ہوتا اور نہ ان کا تعلق ایک علیحدہ چیز ہے اور خالص علوم ‘ تجرباتی امور اور دوسرے انطباقی معاملات ایک دوسری چیز ہے ۔ اسلام کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسانی زندگی کو اسلامی نظام کے مطابق چلایا جائے ۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عقل انسانی کو ایسے کام میں لگایا اگر وہ علم معرفت کی قوت سے نئی نئی مادی ایجادات سامنے لائیں اور یہ کام اسلامی نظام زندگی کے دائرے کے اندر اندر کیا جائے ۔ امام احمد بن حنبل (رح) ایک حدیث نقل کرتے ہیں ۔ بروایت سفیان ‘ جابر ‘ شعبی عبداللہ بن ثابت رحمہم اللہ ۔ وہ فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا ! رسول اللہ ‘ میں نے بنی قریظہ میں سے اپنے ایک یہودی بھائی کو کہا اور اس نے مجھے تورات سے بعض جامع چیزیں لکھ دیں ‘ کیا میں وہ آپ کی خدمت میں پیش نہ کردوں ؟ فرماتے ہیں کہ یہ سنتے ہی رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا ۔ عبداللہ بن ثابت ؓ کہتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر کیا آثار ہیں ؟ عمر نے کہا میں اس پر راضی ہوں کہ اللہ میرا رب ہے ‘ اسلام میرا دین ہے اور محمد میرے رسول ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرے سے آثار غضب کے آثار غائب ہوگئے اور آپ نے فرمایا ” خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ اگر آج تم میں موسیٰ (علیہ السلام) آجائے اور تم اس کی اطاعت کرو مجھے چھوڑ دو تو یقینا ً تم گمراہ ہوجاؤگے ۔ تمام امتوں میں سے تم میرا حصہ ہو اور میں تمام نبیوں میں سے تمہارا حصہ ہوں۔ “ حافظ ابویعلیٰ نے حماد ‘ شعبی کی روایت سے حضرت جابر ؓ سے نقل کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اہل کتاب سے کوئی مسئلہ دریافت نہ کرو ‘ اس لئے کہ جب وہ خود گمراہ ہوگئے تو تمہیں کیسے ہدایت دے سکتے ہیں ۔ اگر تم نے ان سے کوئی بات دریافت کی ‘ تو پھر یا تو تم کسی غلط بات کی تصدیق کروگے اور یا پھر کسی صحیح بات کی تکذیب کروگے ۔ اور اللہ کی قسم آج اگر تمہارے درمیان موسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوتے تو ان کے لئے میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوتا اور بعض روایات میں ہے ” اگر موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) زندہ ہوتے ‘ تو ان دونوں کے لئے میرے اتباع کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ ہوتا۔ “ یہ لوگ ہیں اہل کتاب اور یہ ہیں رسول اللہ ﷺ کے احکام اس امر کے بارے میں کہ ان تمام امور میں جن کا تعلق عقائد ونظریات سے ہے یا جن کا تعلق نظام زندگی اور اسلامی قانون سے ہے ‘ ان میں اہل کتاب سے مکمل اجتناب کرنا ہے ۔ ہاں جن امور کا تعلق محض سائنسی علوم سے ہے تو ان میں اسلام کی روح اور اس کی واضح ہدایات کے مطابق تمام اقوام وملل سے استفادہ جائز ہے ‘ لیکن ان علوم کو بھی ایمانی نظام زندگی کے ساتھ مربوط کرنا ضروری ہے ۔ اس شعور کے ساتھ کے کہ وہ ذات باری ہی ہے جس نے انسان کو اس فطرت کی تسخیر کی قوت دی ہے۔ اس نے فطرت کا رخ تبدیل کیا اور انسانیت کی بھلائی کے لئے اسے استعمال کیا اور انسانیت کے لئے امن و سکون اور سہولیات کا انتظام کیا ۔ لہٰذا وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کائناتی قوتوں کو مسخر کرنے کی طاقت ہمیں عنایت فرمائی اور شکر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں اس کی بندگی کی جائے اور پھر اس علم ومعرفت اور تسخیر کائنات کو انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال کیا جائے۔ رہا ایمانی تصور حیات کا موضوع ‘ اس کائنات کی تخلیق کی بابت نظریات ‘ وجود انسانی کے مقاصد انسانی نظام زندگی اور اس کی تنظیمات اور قوانین ‘ انسان کا اخلاقی نظام اور اس کا طرز عمل تو ان تمام موضوعات میں کسی غیر اسلامی منبع فکر سے کوئی بات اخذ کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ‘ جس کی وجہ سے رسول اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ معمولی بات تھی ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو اس سے بڑی سختی سے ڈرایا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ واضح کفر کا ارتکاب ہوگا۔ یہ ہے اللہ کی ہدایت اور یہ ہے اسوہ رسول اللہ ﷺ ۔ رہے ہم لوگ جو دعوائے اسلام کرتے چلے جارہے ہیں تو ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے علم کے اصول یعنی قرآن و حدیث کی تعلیم بھی مستشرقین سے حاصل کرتے ہیں یا مستشرقین کے شاگردوں سے حاصل کرتے ہیں اور ذرا غور کیجئے کہ ہم اپنے لئے فلسفہ حیات اور وجود انسانی اور حیات انسانی کے آغاز کے نظریات بھی ان لوگوں سے اخذ کرتے ہیں یا پھر یونانی ‘ رومی اور یورپین اور ماری کی فلاسفہ سے یہ نظریات اخذ کرتے ہیں اور پھر ذرا ملاحظہ کیجئے کہ ہم اپنا نظام حیات ‘ اپنے ضوابط اور قوانین بھی ان جعلی مصادر سے اخذ کرتے ہیں ۔ ہم اپنا طرز عمل ‘ اپنے اخلاق اور اپنے آداب بھی اس گندے تالاب سے اخذ کرتے ہیں جو نہایت ہی گندہ ہے اور جس میں جدید مادی تہذیب کی گند جمع ہوچکی ہے ‘ جوہر قسم کے دینی تصورات سے عاری ہے ۔ چاہے وہ اسلام کے سوا کوئی اور دین ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے باوجود ہم اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ یہ ایک ایسا زعم ہے جس کا گناہ کفر صریح کے گناہ سے زیادہ ہے ۔ اس لئے کہ ایسا زعم باطل رکھ کر گویا ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ آج کے دور میں اسلامی نظام زندگی کامیاب نہیں ہے یا اگر کامیاب ہے تو گویا ہم نے اسلام کی شکل مسخ کرکے موجودہ طرز عمل کو اسلام سمجھ رکھا ہے ۔ اور ہم ان امور کی گواہی دے رہے ہیں جبکہ وہ لوگ جو اس زعم میں مبتلا نہیں ہیں وہ دراصل ایسی شہادت نہیں دے رہے ۔ حقیقت یہ ہے اور اسے گرہ میں باندھنا چاہئے کہ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے ۔ وہ چند ممتاز خوصیات کا حامل نظام ہے ۔ اعتقادی تصورات کے اعتبار سے بھی نظام زندگی اور نظام قانون کے اعتبار سے بھی اور اپنے اخلاقی قواعد و اصول کے اعتبار سے بھی ‘ جس پر ہمارے اجتماعی روابط قائم ہوتے ہیں اور یہ دین انہیں ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ روابط سیاسی ہوں ‘ اقتصادی ہوں یا اجتماعی ہوں ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نظام پوری انسانیت کی قیادت کے منصب کا بھی مدعی ہے ۔ لہٰذا اس کا ضروری منطقی اور لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کرہ ارض پر ایک ایسی انقلابی جماعت ہو ‘ جو اس نظام کے جھنڈے اٹھائے اور انسانیت کی راہنمائی کرے ۔ اور جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا اسلامی نظام کے اس قائدانہ دعویٰ کے مزاج کے ساتھ یہ امر مطابقت نہیں رکھتا کہ مسلمان دوسری ملل سے کوئی استفادہ کریں یا ان سے ہدایات لیں ۔ پھر یہ حقیقت بھی بروقت نظروں کے سامنے رہے کہ جب یہ دین آیا تھا تو یہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے آیا تھا۔ اور آج جو لوگ اس نظام کی حکمرانی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ بھی پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے دے رہے ہیں ۔ کل بھی جو شخص اس دعوت کا حامل ہو وہ بھی اسی مقصد کے لئے ہوگا۔ بلکہ انسانیت جن ظالمانہ نظامہائے زندگی کے نیچے پس رہی ہے ‘ اور جسے ہم چشم سر سے دیکھ رہے ہیں اسے اسلام کے عادلانہ زندگی کی اشد ضرورت ہے۔ اس الٰہی نظام زندگی کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے جس پر انسانیت کو نجات ملے ۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسلامی نظام زندگی اپنی تمام خصوصیات کو محفوظ اور زندہ رکھے ۔ اور پوری انسانیت کے اندر قائدانہ مقام حاصل کرے اور اسے ایک بار پھر اس دنیا میں مصائب اور مشکلات سے نجات دے ۔ اس وقت انسانیت نے تسخیر کائنات کے سلسلے میں جو جدوجہد کی ہے اور مختلف میدانوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ اور طب اور صنعت کے میدان میں جو حقائق فراہم کئے ہیں وہ ماضی کے مقابلے میں معجزانہ ہیں اور انسانیت ان میدانوں میں مسلسل پیش قدمی کررہی ہے۔ اور نئی نئی فتوحات حاصل کررہی ہے لیکن ان سب فتوحات کا اس کی زندگی پر کیا اثر ہے ؟ اس کی نفیساتی دنیا کا حال کیا ہے ؟ کیا اس میدان میں بھی وہ خوشحال ہے ؟ کیا اسے اطمینان قلب حاصل ہے ؟ کیا اس کی زندگی پر امن ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ وہ اس وقت ہمہ گیر بدبختی ‘ بےچینی اور خوف کا شکار ہے ۔ وہ اعصابی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہے ۔ وہ بےراہ روی اور جرائم کی وسیع دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ۔ لیکن اس نے انسانیت ‘ حیات انسانی کے مقصد وجود اور انسان کے مقصد تخلیق کے میدان میں کوئی ترقی نہیں کی۔ اس لئے آج جب ہم جدید تہذیب کے فرزند کی ذہنی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ اس کے نزدیک تخلیق انسان کا مقصد کیا ہے تو وہ اسلامی تصور حیات کے مقابلے میں اس میدان میں بالکل مفلس اور پسماندہ اور بونا نظر آتا ہے ۔ بلکہ اس میدان میں یوں نظر آتا ہے کہ اسے ایک لعنت گھیرے ہوئے ہے ‘ جس میں انسان خود اپنی ذات ‘ اس کائنات میں اپنے مقام کو گراتا چلا جاتا ہے ۔ اور اس گراوٹ کے نتیجے میں انسان کی ترجیحات اور اس کی دلچسپیاں بھی گرجاتی ہیں ………یوں انسان اپنی زندگی میں ایک خلاء محسوس کرتا ہے اور یہ خلاء اس تھکے ہوئے انسان کے دل کو کھا جاتا ہے ۔ حیرانی و پریشانی میں اس کی روح ہلاک ہورہی ہے ۔ یہ محض اس لئے کہ اس کی روح میں تصور الٰہ نہیں ہے اور تصور الٰہ سے شدید معاشی حالات نے اسے دور کردیا ہے ۔ اور غلط علمی تصورات نے اسے گمراہ کردیا ہے ۔ یہی علم اگر اسلامی نظام حیات کے رنگ میں ترقی کرتا ‘ تو اس کی ہر کامرانی انسان کو قدر کے قریب تر کردیتی ‘ لیکن جدید انسانیت کا حال یہ ہے کہ وہ جس قدر علمی میدان میں آگے بڑھتی ہے ‘ وہ اپنی بجھی ہوئی اور شکست خوردہ روح کی وجہ معرفت خدا سے اور دور ہوتی جاتی ہے ۔ وہ اس نور سے محروم ہے جس میں اسے اپنا حقیقی مقصدوجود نظر آئے ‘ اور وہ اس مقصد کی طرف اپنی علمی قوت کے ساتھ آگے بڑھے ‘ جو اسے خود اللہ نے عطا فرمایا ہے ۔ اور جس استعداد کی وجہ سے وہ یہ علمی ترقی کررہا ہے وہ بھی اسے اللہ کی عطاکردہ ہی تو ہے ۔ چناچہ انسانیت اس نظام حیات کو نہیں پا رہی ہے جو اس کی حرکت اور اس کائنات کی حرکت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے ‘ اس کی فطرت اور اس کائنات کی فطرت کے درمیان تطابق پیدا کرے ‘ اس کے قوانین اور قوانین قدرت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے ‘ ایسانظام جو اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے ‘ جو اس کی دنیا اور آخرت کے درمیان جوڑ پیدا کرے ‘ جو ایک فرد اور ایک جماعت کے حقوق کے اندر ‘ توازن پیدا کرے ‘ جو اس کے فرائض اور واجبات کے درمیان عدل پیدا کرے اور یہ سب کام نہایت ہی ترتیب کے ساتھ قدرتی طور پر ‘ جامعیت کے ساتھ خوشگوار انداز میں سر انجام پائیں۔ ہمارے دور میں بعض لوگ اسلامی نظام زندگی سے محروم ہوکر کام کرتے ہیں اور جو لوگ اس دور میں اسلامی نظام زندگی کی بات کرتے ہیں اور پرامید نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہیں ‘ انہیں یہ لوگ رجعت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام حیات کی بات کرنے والے دراصل تاریخ اسلامی کے گزشتہ ایک مختصر سنہری دور کی محض آرزو اپنے دلوں کے اندر بسائے ہوئے ہیں ‘ لیکن وہ اسلامی نظام کے حوالے سے ‘ اپنی جہالت کی وجہ سے یا اپنی بدنیتی کی وجہ سے انسانیت کو اسلامی نظام زندگی کی قیادت سے محروم کئے ہوئے ہیں جو ان کی راہنمائی بڑی خوبی ‘ امن وسلامتی اور سکون و اطمینان کی طرف کرسکتا ہے ۔ جو ان کی راہنمائی دنیاوی ترقی اور خوشحالی کی طرف کرسکتا ہے۔ ہم جو اسلامی نظام زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کس چیز کی طرف انسانیت کو بلا رہے ہیں ۔ ہم اس انسانیت کو اس کی حقیقی تلخیوں میں دیکھ رہے ہیں ۔ ہم اس گندے تالاب کا متعفن رائحہ محسوس کررہے ہیں ‘ جس میں انسانیت لت پت ہے لیکن دور بلند افق پر نجات کے جھنڈے لہرا رہے ہیں جو صحراء کی تپش کی جھلسنے والی تھکی ماندی انسانیت کو نجات کی چمک دکھا رہے ہیں اور یہ پاک وصاف اور روشن چوٹی ‘ اس گندے تالاب میں انسانیت کو اپنی طرف بلارہی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر انسانیت کے قائدین نے اس نظام زندگی کو قبول نہ کیا تو انسانیت پوری انسانی تاریخ میں توہین آمیز مصیبت کا شکار ہوگی اور یہ پوری انسانی تاریخ میں بدترین مصیبت ہوگی اور ہر مفہوم کے اعتبار سے بدی ہوگی ۔ اس راہ میں پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ یہ نظام زندگی ممتاز اور منفرد ہو اور اس کے حاملین ‘ اس کے ارد گرد پھیلی جاہلیت سے کوئی راہنمائی حاصل نہ کریں اور یہ نظام مسلسل پاک اور صاف موجود رہے ۔ یہاں تک کہ اللہ کے اذن سے دوبارہ پوریہ انسانیت کی قیادت سنبھالے ۔ اللہ بڑا رحیم وکریم ہے اور وہ انسانوں کو ہمیشہ کے لئے انسان کے دشمنوں کے لئے رحم وکرم پر نہ چھوڑے گا ‘ جو جگہ جگہ انسانیت کو جاہلیت کی طرف بلاتے ہیں ۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی تلقین اللہ تعالیٰ ‘ پہلی جماعت مسلمہ کو اپنی کتاب میں کررہے ہیں اور رسول اکرم ﷺ نے بھی اپنی تعلیمات میں اس نکتے کی بار بار تلقین فرمائی ۔ اس تنبیہ اور خبرداری کے بعد کہ اہل کتاب سے کوئی ہدایت اخذ نہ کی جائے ‘ ان کی اطاعت اور اتباع نہ کیا جائے ‘ اب جماعت مسلمہ کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ اس کی زندگی اور اس کی زندگی کا نظام حیات دواساسی قواعد پر مبنی ہے ۔ یہ ایسے قواعد ہیں جن کو مد نظر رکھنا اس کے لئے اس بار امانت کی اٹھانے کے لئے ضروری ہے ‘ جس کی ذمہ داری اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اور جس کی خاطر اللہ تعالیٰ اس امت کو وجود میں لایا ہے ۔ یہ دونوں اساسی قواعد ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں یعنی اخوت اور ایمان ۔ یعنی اللہ پر ایمان لانا ‘ اس سے ڈرنا اور تمام امور حیات میں ہر وقت اور ہر لحظہ اسے یاد رکھنا ۔ اور ان تمام لوگوں کے ساتھ اخوت رکھنا جو اس مفہوم میں مومن باللہ ہوں ۔ وہ اخوت جس کی وجہ سے جماعت مسلمہ زندہ ‘ قوی اور مستحکم بنیاد بن جاتی ہے اور یوں وہ اس عظیم کردار کے ادا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے جو اسے انسانی زندگی اور انسانی تاریخ میں ادا کرنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اور اس دنیا کے نظام حیات کو معروف پر قائم کرنا اور منکر کی آلودگی سے اسے پاک کرنا ۔ فرماتے ہیں :
Top