Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠ ۧ
وَكَيْفَ
: اور کیسے
تَكْفُرُوْنَ
: تم کفر کرتے ہو
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
تُتْلٰى
: پڑھی جاتی ہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اٰيٰتُ
: آیتیں
اللّٰهِ
: اللہ
وَفِيْكُمْ
: اور تمہارے درمیان
رَسُوْلُهٗ
: اس کا رسول
وَمَنْ
: اور جو
يَّعْتَصِمْ
: مضبوط پکڑے گا
بِاللّٰهِ
: اللہ کو
فَقَدْ ھُدِيَ
: تو اسے ہدایت دی گئی
اِلٰى
: طرف
صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ
: سیدھا راستہ
تمہارے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقعہ باقی ہے جبکہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں ۔ اور تمہارے درمیان اس کا رسول ہے ؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا۔
ہاں ‘ ایسے حالات میں ‘ ایمان لانے کے بعد کسی مومن کا کافر ہوجانا بیشک ایک عظیم امر ہے ‘ اور جب رسول اللہ ﷺ نے اپنا وقت پورا کرلیا اور اپنے رفیق الاعلیٰ کے ساتھ جاملے تو اس صورت میں بھی آیات الٰہی موجود ہیں ۔ اور سنت رسول ﷺ باقی ہے ۔ آج ہم بھی ان آیات کے اسی طرح مخاطب ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے لوگ مخاطب تھے ۔ اور آج بھی کامیابی کی راہ واضح ہے اور کامیابی کے جھنڈے بلند ہیں ۔ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ……………” اور جو اللہ کا دامن مضبوطی سے تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا۔ “ ہاں ‘ اللہ کا دامن تھام لینے میں ہی نجات ہے۔ اللہ جل شانہٗ موجود ہیں ۔ وہ زندہ اور قیوم ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام پر ‘ اسلامی نظریہ حیات اسلامی عقائد اور اسلامی نظام زندگی کے سلسلے میں بہت زیادہ سختی فرماتے تھے ۔ جبکہ زندگی کے خالص عملی اور تجربی امور میں آپ انہیں کھلا چھوڑتے تھے ، یعنی ان امور میں جن میں حقیقت کا دارومدار تجربے پر موقوف ہوتا ہے مثلاً طریقہائے زراعت ، طریقہائے جنگ و قتال اور ایسے ہی دوسرے امور جن کا تعلق خالص علمی اور تجرباتی امور سے ہوتا ہے اور جس میدان میں اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یا جن کا تعلق اسلامی نظام زندگی کے ساتھ نہیں ہوتا اور نہ ان کا تعلق ایک علیحدہ چیز ہے اور خالص علوم ‘ تجرباتی امور اور دوسرے انطباقی معاملات ایک دوسری چیز ہے ۔ اسلام کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسانی زندگی کو اسلامی نظام کے مطابق چلایا جائے ۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عقل انسانی کو ایسے کام میں لگایا اگر وہ علم معرفت کی قوت سے نئی نئی مادی ایجادات سامنے لائیں اور یہ کام اسلامی نظام زندگی کے دائرے کے اندر اندر کیا جائے ۔ امام احمد بن حنبل (رح) ایک حدیث نقل کرتے ہیں ۔ بروایت سفیان ‘ جابر ‘ شعبی عبداللہ بن ثابت رحمہم اللہ ۔ وہ فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا ! رسول اللہ ‘ میں نے بنی قریظہ میں سے اپنے ایک یہودی بھائی کو کہا اور اس نے مجھے تورات سے بعض جامع چیزیں لکھ دیں ‘ کیا میں وہ آپ کی خدمت میں پیش نہ کردوں ؟ فرماتے ہیں کہ یہ سنتے ہی رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا ۔ عبداللہ بن ثابت ؓ کہتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر کیا آثار ہیں ؟ عمر نے کہا میں اس پر راضی ہوں کہ اللہ میرا رب ہے ‘ اسلام میرا دین ہے اور محمد میرے رسول ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرے سے آثار غضب کے آثار غائب ہوگئے اور آپ نے فرمایا ” خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ اگر آج تم میں موسیٰ (علیہ السلام) آجائے اور تم اس کی اطاعت کرو مجھے چھوڑ دو تو یقینا ً تم گمراہ ہوجاؤگے ۔ تمام امتوں میں سے تم میرا حصہ ہو اور میں تمام نبیوں میں سے تمہارا حصہ ہوں۔ “ حافظ ابویعلیٰ نے حماد ‘ شعبی کی روایت سے حضرت جابر ؓ سے نقل کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اہل کتاب سے کوئی مسئلہ دریافت نہ کرو ‘ اس لئے کہ جب وہ خود گمراہ ہوگئے تو تمہیں کیسے ہدایت دے سکتے ہیں ۔ اگر تم نے ان سے کوئی بات دریافت کی ‘ تو پھر یا تو تم کسی غلط بات کی تصدیق کروگے اور یا پھر کسی صحیح بات کی تکذیب کروگے ۔ اور اللہ کی قسم آج اگر تمہارے درمیان موسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوتے تو ان کے لئے میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوتا اور بعض روایات میں ہے ” اگر موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) زندہ ہوتے ‘ تو ان دونوں کے لئے میرے اتباع کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ ہوتا۔ “ یہ لوگ ہیں اہل کتاب اور یہ ہیں رسول اللہ ﷺ کے احکام اس امر کے بارے میں کہ ان تمام امور میں جن کا تعلق عقائد ونظریات سے ہے یا جن کا تعلق نظام زندگی اور اسلامی قانون سے ہے ‘ ان میں اہل کتاب سے مکمل اجتناب کرنا ہے ۔ ہاں جن امور کا تعلق محض سائنسی علوم سے ہے تو ان میں اسلام کی روح اور اس کی واضح ہدایات کے مطابق تمام اقوام وملل سے استفادہ جائز ہے ‘ لیکن ان علوم کو بھی ایمانی نظام زندگی کے ساتھ مربوط کرنا ضروری ہے ۔ اس شعور کے ساتھ کے کہ وہ ذات باری ہی ہے جس نے انسان کو اس فطرت کی تسخیر کی قوت دی ہے۔ اس نے فطرت کا رخ تبدیل کیا اور انسانیت کی بھلائی کے لئے اسے استعمال کیا اور انسانیت کے لئے امن و سکون اور سہولیات کا انتظام کیا ۔ لہٰذا وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کائناتی قوتوں کو مسخر کرنے کی طاقت ہمیں عنایت فرمائی اور شکر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں اس کی بندگی کی جائے اور پھر اس علم ومعرفت اور تسخیر کائنات کو انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال کیا جائے۔ رہا ایمانی تصور حیات کا موضوع ‘ اس کائنات کی تخلیق کی بابت نظریات ‘ وجود انسانی کے مقاصد انسانی نظام زندگی اور اس کی تنظیمات اور قوانین ‘ انسان کا اخلاقی نظام اور اس کا طرز عمل تو ان تمام موضوعات میں کسی غیر اسلامی منبع فکر سے کوئی بات اخذ کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ‘ جس کی وجہ سے رسول اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ معمولی بات تھی ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو اس سے بڑی سختی سے ڈرایا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ واضح کفر کا ارتکاب ہوگا۔ یہ ہے اللہ کی ہدایت اور یہ ہے اسوہ رسول اللہ ﷺ ۔ رہے ہم لوگ جو دعوائے اسلام کرتے چلے جارہے ہیں تو ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے علم کے اصول یعنی قرآن و حدیث کی تعلیم بھی مستشرقین سے حاصل کرتے ہیں یا مستشرقین کے شاگردوں سے حاصل کرتے ہیں اور ذرا غور کیجئے کہ ہم اپنے لئے فلسفہ حیات اور وجود انسانی اور حیات انسانی کے آغاز کے نظریات بھی ان لوگوں سے اخذ کرتے ہیں یا پھر یونانی ‘ رومی اور یورپین اور ماری کی فلاسفہ سے یہ نظریات اخذ کرتے ہیں اور پھر ذرا ملاحظہ کیجئے کہ ہم اپنا نظام حیات ‘ اپنے ضوابط اور قوانین بھی ان جعلی مصادر سے اخذ کرتے ہیں ۔ ہم اپنا طرز عمل ‘ اپنے اخلاق اور اپنے آداب بھی اس گندے تالاب سے اخذ کرتے ہیں جو نہایت ہی گندہ ہے اور جس میں جدید مادی تہذیب کی گند جمع ہوچکی ہے ‘ جوہر قسم کے دینی تصورات سے عاری ہے ۔ چاہے وہ اسلام کے سوا کوئی اور دین ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے باوجود ہم اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ یہ ایک ایسا زعم ہے جس کا گناہ کفر صریح کے گناہ سے زیادہ ہے ۔ اس لئے کہ ایسا زعم باطل رکھ کر گویا ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ آج کے دور میں اسلامی نظام زندگی کامیاب نہیں ہے یا اگر کامیاب ہے تو گویا ہم نے اسلام کی شکل مسخ کرکے موجودہ طرز عمل کو اسلام سمجھ رکھا ہے ۔ اور ہم ان امور کی گواہی دے رہے ہیں جبکہ وہ لوگ جو اس زعم میں مبتلا نہیں ہیں وہ دراصل ایسی شہادت نہیں دے رہے ۔ حقیقت یہ ہے اور اسے گرہ میں باندھنا چاہئے کہ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے ۔ وہ چند ممتاز خوصیات کا حامل نظام ہے ۔ اعتقادی تصورات کے اعتبار سے بھی نظام زندگی اور نظام قانون کے اعتبار سے بھی اور اپنے اخلاقی قواعد و اصول کے اعتبار سے بھی ‘ جس پر ہمارے اجتماعی روابط قائم ہوتے ہیں اور یہ دین انہیں ترک نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ روابط سیاسی ہوں ‘ اقتصادی ہوں یا اجتماعی ہوں ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نظام پوری انسانیت کی قیادت کے منصب کا بھی مدعی ہے ۔ لہٰذا اس کا ضروری منطقی اور لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کرہ ارض پر ایک ایسی انقلابی جماعت ہو ‘ جو اس نظام کے جھنڈے اٹھائے اور انسانیت کی راہنمائی کرے ۔ اور جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا اسلامی نظام کے اس قائدانہ دعویٰ کے مزاج کے ساتھ یہ امر مطابقت نہیں رکھتا کہ مسلمان دوسری ملل سے کوئی استفادہ کریں یا ان سے ہدایات لیں ۔ پھر یہ حقیقت بھی بروقت نظروں کے سامنے رہے کہ جب یہ دین آیا تھا تو یہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے آیا تھا۔ اور آج جو لوگ اس نظام کی حکمرانی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ بھی پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے دے رہے ہیں ۔ کل بھی جو شخص اس دعوت کا حامل ہو وہ بھی اسی مقصد کے لئے ہوگا۔ بلکہ انسانیت جن ظالمانہ نظامہائے زندگی کے نیچے پس رہی ہے ‘ اور جسے ہم چشم سر سے دیکھ رہے ہیں اسے اسلام کے عادلانہ زندگی کی اشد ضرورت ہے۔ اس الٰہی نظام زندگی کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے جس پر انسانیت کو نجات ملے ۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسلامی نظام زندگی اپنی تمام خصوصیات کو محفوظ اور زندہ رکھے ۔ اور پوری انسانیت کے اندر قائدانہ مقام حاصل کرے اور اسے ایک بار پھر اس دنیا میں مصائب اور مشکلات سے نجات دے ۔ اس وقت انسانیت نے تسخیر کائنات کے سلسلے میں جو جدوجہد کی ہے اور مختلف میدانوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ اور طب اور صنعت کے میدان میں جو حقائق فراہم کئے ہیں وہ ماضی کے مقابلے میں معجزانہ ہیں اور انسانیت ان میدانوں میں مسلسل پیش قدمی کررہی ہے۔ اور نئی نئی فتوحات حاصل کررہی ہے لیکن ان سب فتوحات کا اس کی زندگی پر کیا اثر ہے ؟ اس کی نفیساتی دنیا کا حال کیا ہے ؟ کیا اس میدان میں بھی وہ خوشحال ہے ؟ کیا اسے اطمینان قلب حاصل ہے ؟ کیا اس کی زندگی پر امن ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ وہ اس وقت ہمہ گیر بدبختی ‘ بےچینی اور خوف کا شکار ہے ۔ وہ اعصابی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہے ۔ وہ بےراہ روی اور جرائم کی وسیع دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ۔ لیکن اس نے انسانیت ‘ حیات انسانی کے مقصد وجود اور انسان کے مقصد تخلیق کے میدان میں کوئی ترقی نہیں کی۔ اس لئے آج جب ہم جدید تہذیب کے فرزند کی ذہنی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ اس کے نزدیک تخلیق انسان کا مقصد کیا ہے تو وہ اسلامی تصور حیات کے مقابلے میں اس میدان میں بالکل مفلس اور پسماندہ اور بونا نظر آتا ہے ۔ بلکہ اس میدان میں یوں نظر آتا ہے کہ اسے ایک لعنت گھیرے ہوئے ہے ‘ جس میں انسان خود اپنی ذات ‘ اس کائنات میں اپنے مقام کو گراتا چلا جاتا ہے ۔ اور اس گراوٹ کے نتیجے میں انسان کی ترجیحات اور اس کی دلچسپیاں بھی گرجاتی ہیں ………یوں انسان اپنی زندگی میں ایک خلاء محسوس کرتا ہے اور یہ خلاء اس تھکے ہوئے انسان کے دل کو کھا جاتا ہے ۔ حیرانی و پریشانی میں اس کی روح ہلاک ہورہی ہے ۔ یہ محض اس لئے کہ اس کی روح میں تصور الٰہ نہیں ہے اور تصور الٰہ سے شدید معاشی حالات نے اسے دور کردیا ہے ۔ اور غلط علمی تصورات نے اسے گمراہ کردیا ہے ۔ یہی علم اگر اسلامی نظام حیات کے رنگ میں ترقی کرتا ‘ تو اس کی ہر کامرانی انسان کو قدر کے قریب تر کردیتی ‘ لیکن جدید انسانیت کا حال یہ ہے کہ وہ جس قدر علمی میدان میں آگے بڑھتی ہے ‘ وہ اپنی بجھی ہوئی اور شکست خوردہ روح کی وجہ معرفت خدا سے اور دور ہوتی جاتی ہے ۔ وہ اس نور سے محروم ہے جس میں اسے اپنا حقیقی مقصدوجود نظر آئے ‘ اور وہ اس مقصد کی طرف اپنی علمی قوت کے ساتھ آگے بڑھے ‘ جو اسے خود اللہ نے عطا فرمایا ہے ۔ اور جس استعداد کی وجہ سے وہ یہ علمی ترقی کررہا ہے وہ بھی اسے اللہ کی عطاکردہ ہی تو ہے ۔ چناچہ انسانیت اس نظام حیات کو نہیں پا رہی ہے جو اس کی حرکت اور اس کائنات کی حرکت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے ‘ اس کی فطرت اور اس کائنات کی فطرت کے درمیان تطابق پیدا کرے ‘ اس کے قوانین اور قوانین قدرت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے ‘ ایسانظام جو اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے ‘ جو اس کی دنیا اور آخرت کے درمیان جوڑ پیدا کرے ‘ جو ایک فرد اور ایک جماعت کے حقوق کے اندر ‘ توازن پیدا کرے ‘ جو اس کے فرائض اور واجبات کے درمیان عدل پیدا کرے اور یہ سب کام نہایت ہی ترتیب کے ساتھ قدرتی طور پر ‘ جامعیت کے ساتھ خوشگوار انداز میں سر انجام پائیں۔ ہمارے دور میں بعض لوگ اسلامی نظام زندگی سے محروم ہوکر کام کرتے ہیں اور جو لوگ اس دور میں اسلامی نظام زندگی کی بات کرتے ہیں اور پرامید نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہیں ‘ انہیں یہ لوگ رجعت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام حیات کی بات کرنے والے دراصل تاریخ اسلامی کے گزشتہ ایک مختصر سنہری دور کی محض آرزو اپنے دلوں کے اندر بسائے ہوئے ہیں ‘ لیکن وہ اسلامی نظام کے حوالے سے ‘ اپنی جہالت کی وجہ سے یا اپنی بدنیتی کی وجہ سے انسانیت کو اسلامی نظام زندگی کی قیادت سے محروم کئے ہوئے ہیں جو ان کی راہنمائی بڑی خوبی ‘ امن وسلامتی اور سکون و اطمینان کی طرف کرسکتا ہے ۔ جو ان کی راہنمائی دنیاوی ترقی اور خوشحالی کی طرف کرسکتا ہے۔ ہم جو اسلامی نظام زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کس چیز کی طرف انسانیت کو بلا رہے ہیں ۔ ہم اس انسانیت کو اس کی حقیقی تلخیوں میں دیکھ رہے ہیں ۔ ہم اس گندے تالاب کا متعفن رائحہ محسوس کررہے ہیں ‘ جس میں انسانیت لت پت ہے لیکن دور بلند افق پر نجات کے جھنڈے لہرا رہے ہیں جو صحراء کی تپش کی جھلسنے والی تھکی ماندی انسانیت کو نجات کی چمک دکھا رہے ہیں اور یہ پاک وصاف اور روشن چوٹی ‘ اس گندے تالاب میں انسانیت کو اپنی طرف بلارہی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر انسانیت کے قائدین نے اس نظام زندگی کو قبول نہ کیا تو انسانیت پوری انسانی تاریخ میں توہین آمیز مصیبت کا شکار ہوگی اور یہ پوری انسانی تاریخ میں بدترین مصیبت ہوگی اور ہر مفہوم کے اعتبار سے بدی ہوگی ۔ اس راہ میں پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ یہ نظام زندگی ممتاز اور منفرد ہو اور اس کے حاملین ‘ اس کے ارد گرد پھیلی جاہلیت سے کوئی راہنمائی حاصل نہ کریں اور یہ نظام مسلسل پاک اور صاف موجود رہے ۔ یہاں تک کہ اللہ کے اذن سے دوبارہ پوریہ انسانیت کی قیادت سنبھالے ۔ اللہ بڑا رحیم وکریم ہے اور وہ انسانوں کو ہمیشہ کے لئے انسان کے دشمنوں کے لئے رحم وکرم پر نہ چھوڑے گا ‘ جو جگہ جگہ انسانیت کو جاہلیت کی طرف بلاتے ہیں ۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی تلقین اللہ تعالیٰ ‘ پہلی جماعت مسلمہ کو اپنی کتاب میں کررہے ہیں اور رسول اکرم ﷺ نے بھی اپنی تعلیمات میں اس نکتے کی بار بار تلقین فرمائی ۔ اس تنبیہ اور خبرداری کے بعد کہ اہل کتاب سے کوئی ہدایت اخذ نہ کی جائے ‘ ان کی اطاعت اور اتباع نہ کیا جائے ‘ اب جماعت مسلمہ کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ اس کی زندگی اور اس کی زندگی کا نظام حیات دواساسی قواعد پر مبنی ہے ۔ یہ ایسے قواعد ہیں جن کو مد نظر رکھنا اس کے لئے اس بار امانت کی اٹھانے کے لئے ضروری ہے ‘ جس کی ذمہ داری اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اور جس کی خاطر اللہ تعالیٰ اس امت کو وجود میں لایا ہے ۔ یہ دونوں اساسی قواعد ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں یعنی اخوت اور ایمان ۔ یعنی اللہ پر ایمان لانا ‘ اس سے ڈرنا اور تمام امور حیات میں ہر وقت اور ہر لحظہ اسے یاد رکھنا ۔ اور ان تمام لوگوں کے ساتھ اخوت رکھنا جو اس مفہوم میں مومن باللہ ہوں ۔ وہ اخوت جس کی وجہ سے جماعت مسلمہ زندہ ‘ قوی اور مستحکم بنیاد بن جاتی ہے اور یوں وہ اس عظیم کردار کے ادا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے جو اسے انسانی زندگی اور انسانی تاریخ میں ادا کرنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اور اس دنیا کے نظام حیات کو معروف پر قائم کرنا اور منکر کی آلودگی سے اسے پاک کرنا ۔ فرماتے ہیں :
Top