Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 105
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو تَفَرَّقُوْا : متفرق ہوگئے وَاخْتَلَفُوْا : اور باہم اختلاف کرنے لگے مِنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَھُمُ : ان کے پاس آگئے الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْم : بڑا
کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے ۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روزسخت سزا پائیں گے
یہاں سیاق کلام میں ‘ قرآن اپنے مناظر میں سے ایک منظر کو پیش کرتا ہے ‘ جو زندگی متحرک مناظر سے بھرپور ہے ، ہم ایک ہولناک منظر کے سامنے ہیں ‘ یہ اس قدر خوفناک ہے کہ جس کی نقشہ کشی بذریعہ الفاظ ممکن نہیں ہے ۔ نہ اس کے خدوخال الفاظ میں بیان ہوسکتے ہیں ۔ ہمارے سامنے دوقسم کے انسان کھڑے ہیں ‘ یہ زندہ انسان ہیں ‘ ان کے چہرے ہیں اور خدوخال ہیں ۔ کچھ لوگ ہیں جن کے چہرے نورانی ہیں ‘ خوشی ان سے ٹپک رہی ہے ‘ اور ہشاش وبشاش ہیں اور خوشی ومسرت سے چہرے سرخ وسفید ہوگئے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں بعض دوسرے چہرے ہیں جو رنج والم کی وجہ سے بجھے بجھے ہیں ‘ ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں ‘ تھکان کی وجہ سے سیاہ ہوگئے ہیں ‘ لیکن اس حالت میں بھی وہ معاف نہیں ہیں ۔ اپنے حال پر چھوڑ نہیں دیئے گئے ‘ بلکہ انہیں مزید رلایا جاتا ہے اور ملامت کی جاتی ہے۔ ” نعمت ایمان پانے کے بعد تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا ؟ اچھا تو اب اس کفران نعمت کے صلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔ “ ” رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو ان کو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے ۔ “ یوں جماعت مسلمہ کے ضمیر کی گہرائیوں میں تفرقہ اور اختلاف کے برے نتائج کا خوف بیٹھ جاتا ہے ۔ اور وہ جان لیتے ہیں کہ ایمان اور محبت والفت اللہ کا کس قدر عظیم انعام واکرام ہے۔ اور اس منظر میں جماعت مسلمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی ہے کہ اہل کتاب جنہوں نے تفرقہ کیا وہ کس قدر بھیانک انجام سے دوچار ہوئے ‘ جن کی اطاعت سے جماعت مسلمہ کو ڈرایا جاتا ہے تاکہ وہ بھی اسی بھیانک انجام سے دوچار ہوکر عذاب الیم میں گرفتار نہ ہوجائے ‘ جس دن بعض چہرے سفید اور ہشاش بشاش ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ وکبیدہ خاطر ہوں گے ۔ اور اب ان دونوں فریقوں کی تصویر کشی اور انجام بتادینے کے بعد قرآن کریم اس پوری بحث پر اپنے مخصوص انداز میں اختتامی کلمات کہتا ہے ۔ یہ کلمات انہی خطوط پر ہیں جن پر اس سورت کے مضامین جارہے ہیں ۔ یعنی یہ کہ وحی الٰہی سچائی اور دانائی پر مبنی ہیں اور یہ کہ قیامت کے دن جزاء و سزاء ایک سنجیدہ امر ہے ‘ اللہ کے احکام دنیا وآخرت میں عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی ہیں ۔ اور یہ کہ جو کچھ زمین میں ہے اور آسمان میں ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہے ۔ اور تمام امور کا فیصلہ آخر کار اس کے سامنے ہونے والا ہے۔
Top