Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 111
لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًى١ؕ وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَنْ : ہرگز يَّضُرُّوْكُمْ : نہ بگاڑ سکیں گے تمہارا اِلَّآ : سوائے اَذًى : ستانا وَاِنْ : اور اگر يُّقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے يُوَلُّوْكُمُ : وہ تمہیں پیٹھ دکھائیں گے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ : پھر لَا يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد نہ ہوگی
یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑسکتے ‘ زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستاسکتے ہیں ۔ اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے ‘ پھر ایسے بےبس ہوں گے کہ کہیں سے ان کو مدد نہ ملے گی ۔
ان آیات میں اللہ مومنین کو فتح ونصرت کی ضمانت دیتے ہیں ‘ اور آخرکار ان کی سلامتی کی بھی صریح ضمانت دیتے ہیں ‘ جب بھی وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ میدان جنگ میں آمنا سامنا کریں گے یہ ضمانت ان کے لئے موجود ہوگی بشرطیکہ وہ اپنے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور اپنے رب پر یقین کریں۔ لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الأدْبَارَ ثُمَّ لا يُنْصَرُونَ……………” یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے زیادہ سے زیادہ بس ستاسکتے ہیں ‘ اگر یہ تم سے لڑیں تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے ‘ پھر ایسے بےبس ہوں گے کہ کہیں سے ان کو مدد نہ ملے گی ۔ “ اس لئے وہ دعوت اسلامی کو کوئی حقیقی ضرر نہیں پہنچاسکتے ‘ نہ وہ جماعت مسلمہ کی تشکیل میں کوئی اثر اندازی کرسکتے ہیں اور نہ وہ دعوت اسلامی کو اس کرہ ارض سے ختم کرسکتے ہیں ۔ ہاں جماعت مسلمہ کے ساتھ جب ان کا تصادم ہوتا ہے تو وہ اذیت دے سکتے ہیں ‘ وہ اس قسم کے عارضی دکھ دے سکتے ہیں جو مرور زمانہ کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں ۔ لیکن جب وہ مسلمانوں کے ساتھ میدان جنگ میں مقابل ہوں گے تو ان کے لئے شکست لکھی ہوئی ہے اور آخر کار وہ شکست کھائیں گے ‘ ان کی قسمت میں مسلمانوں کے برخلاف کوئی نصرت نہیں ہے ۔ ان کو مسلمانوں کے مقابلے میں کوئی مددگار ملے گا اور نہ وہ مسلمانوں کی زد سے بچ سکیں گے ۔ اور یہ اس لئے ہے کہ ان پر ذلت کی زد پڑگئی ہے اور اس کا یہ انجام بد لکھ دیا گیا ہے ‘ اس لئے وہ جس سرزمین میں بھی ہوں گے وہ ذلیل ہوکر رہیں گے ‘ وہ یا تو اللہ کی ذمہ داری میں رہیں گے اور یا مسلمانوں کی ذمہ داری میں رہیں گے ۔ جب وہ مسلمانوں کی ذمہ داری میں داخل ہوں گے تو ان کا مال اور ان کی جان محفوظ ہوگی ماسوائے اس کے کہ ان کے خلاف کوئی حق ثابت ہوچکا ہو ‘ یوں انہیں امن اور اطمینان نصیب ہوگا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہودیوں کو صحیح امن مسلمانوں کی ذمہ داری کے اندر نصیب ہوا ہے۔ لیکن یہود اس قدر نمک حرام ہیں کہ وہ اس کرہ ارض پر مسلمانوں سے زیادہ اور کسی کے ساتھ دشمنی نہیں رکھتے ۔” وہ اللہ کا غضب لے کر لوئے ہیں ۔ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ یعنی گویا وہ دربدر ہوئے ‘ مارے مارے پھرتے رہے اور آخر کار اللہ کے غضب کا سامان سروں پر اٹھائے ہوئے لوٹے۔ “ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ……………” ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ۔ “ ان کے ضمیر اور شعور میں محتاجی کا احساس رچ بس گیا ہے ۔ ان آیات کے نزول کے بعد یہ تمام واقعات یہودیوں کی تاریخ میں انہیں پیش آئے ‘ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان جو معرکے پیش ہوئے ان میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح ونصرت سے سرفراز کیا ‘ جب تک مسلمانوں نے اپنے دین اور اپنے نظام حیات اور اپنے نظریہ حیات کو اپنے سینے سے لگائے رکھا ‘ اور اپنی زندگیوں میں اسلامی نظام حیات قائم رکھا ‘ تو ان کے اعداء کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے ذلت اور خواری کو لکھ دیا۔ الا یہ کہ مسلمانوں کے عہد وذمہ داری کی وجہ سے انہیں چین نصیب ہوا یا یہ کہ خود مسلمانوں نے اسلامی نظام حیات کو ترک کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔
Top