Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 117
مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُ١ؕ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
مَثَلُ : مثال مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِيْ : میں ھٰذِهِ : اس الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا كَمَثَلِ : ایسی۔ جیسے رِيْحٍ : ہوا فِيْھَا : اس میں صِرٌّ : پالا اَصَابَتْ : وہ جا لگے حَرْثَ : کھیتی قَوْمٍ : قوم ظَلَمُوْٓا : انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَھُمْ : جانیں اپنی فَاَھْلَكَتْهُ : پھر اس کو ہلاک کردے وَمَا ظَلَمَھُمُ : اور ظلم نہیں کیا ان پر اللّٰهُ : اللہ وَلٰكِنْ : بلکہ اَنْفُسَھُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے ہیں
جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کررہے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں پالاہو اور وہ ان لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے برباد کرکے رکھ دے ۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا ۔ درحقیقت یہ خود اپنے اوپر ظلم کررہے ہیں ۔
ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جس کے سامنے ایک ہر ابھرا کھیت ہے ‘ اس کی فصل کٹائی کے لئے تیار ہے ۔ کھیت لہلہارہا ہے ۔ اچانک تیز ہوا چلتی ہے ‘ یہ نہایت سرد برفانی ہوا ہے ‘ شدید سردی کی وجہ سے تیار فصل جل جاتی ہے ‘ یہ دیکھا گیا ہے کہ شدت برودت کی وجہ سے فصل جھلس جاتی ہے ۔ الفاظ اسی طرح استعمال ہوئے ہیں کہ گویا اس کھیت پر بڑی تیزی اور قوت کے ساتھ سنگ باری ہوتی ہے اور پورے پورے کھیت کو برباد اور خراب کردیا جاتا ہے ۔ چشم زدن میں یہ پورا عمل سر انجام پاتا ہے ۔ آناً فاناً کھیت ملیا میٹ اور خراب ہوجاتا ہے ۔ یہی مثال اس دنیا میں ان لوگوں کے انفاق کی ہے جو کافر ہیں ‘ اگرچہ وہ بظاہر کارخیر اور اچھے مقاصد میں خرچ کرتے ہیں نیز ان لوگوں کے اموال اور اولاد بھی کچھ کام نہ دیں گے ۔ قیامت میں سب کے سب بےکار ہوں گے ۔ وہ وہاں نہ کوئی حقیقی دولت ہوں گے اور نہ ان پر کوئی جزاء ہوگی اور نہ مفید بن سکیں گے ۔ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ……………” اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا ‘ وہ خود اپنے اوپر ظلم کررہے ہیں ۔ “ خود انہوں نے اس نظام زندگی سے روگردانی کی جو تمام انفرادی بھلائیوں اور اچھائیوں کو جمع کرنے والا ہے ‘ ان کو ایک خط مستقیم پر لاتا ہے اور مستحکم کرکے ایک مرکزتک پہنچاتا ہے ۔ جس کا ایک مقرر ہدف ہے ‘ ایک قابل فہم داعیہ ہے ‘ اس میں نیکی کا ایک خاص طریق کار ہے ‘ اس میں نیکی کو کسی عارضی جذبے یا کسی پوشیدہ خواہش اور یا کسی بےربط عمل کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اس میں نیکی اور بھلائی ایک مستقل دائمی منہاج کے مطابق سر انجام دی جاتی ہے ۔ ان لوگوں نے خود اپنے لئے گمراہی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیا ‘ انہوں نے اللہ کی رسی کی حفاظت سے منہ موڑا ‘ جس کی وجہ سے ان کے تمام اعمال اکارت گئے ‘ یہاں تک کہ جو مال انہوں نے بظاہر کارخیر میں صرف کئے وہ بھی ضائع ہوئے ۔ جب ان کا کھیت بھی تباہ ہوگیا ‘ تو پھر ان کا مال ان کے کس کام اور ان کی اولاد ان کے کس کام ؟ یہ ظلم انہوں نے خود اپنے آپ پر کیا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے خود نافرمانی اور روگردانی کا راستہ اپنے لئے اختیار کیا ۔ غرض یہ فیصلہ کن بات ہے کہ کوئی انفاق فی سبیل اللہ اور کوئی عمل صالح اس وقت تک مفید نہیں ہے جب اس کا رابطہ ایمانی منہاج سے نہ ہو ‘ جب تک وہ ایمانی داعیہ پر مبنی نہ ہو ۔ یہ فیصلہ اللہ کا ہے ‘ یہ اللہ کا کہنا ہے لہٰذا اس میں انسان کے لئے کچھ کہنے کا کوئی موقعہ باقی ہی نہیں رہتا ۔ اس فیصلے کو وہی لوگ چیلنج کرسکتے ہیں جو اللہ کی آیات کو چیلنج کرتے ہیں ‘ لیکن ان کا یہ چیلنج علم و دانش پر مبنی نہیں ہوتا ۔ وہ ہدایت پر مبنی ہوتا ہے ‘ نہ کتاب الٰہی کے روشن دلائل پر۔ یہ سبق جس کا آغاز اہل کتاب کے طرز عمل میں انحراف اور بگاڑ سے ہوا تھا ‘ جس میں بتایا گیا تھا کہ اہل کتاب کے جدال ومناظرے میں کیا کیا مغالطے ہیں ‘ جس میں تفصیلاًبتایا گیا کہ یہ اہل کتاب مسلمانوں کے خلاف کیا کیا سازشیں کررہے ہیں ‘ جس میں جماعت مسلمہ کو بتایا گیا تھا ‘ کہ اس کرہ ارض پر اس کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ‘ قطع نظر اس سے کہ یہ فاسق ‘ بگڑے ہوئے لوگ جو محاربہ کررہے ہیں وہ کیا کہتے ہیں ۔ اس سبق کے آخر میں جو اس پوری سورت میں طویل سبق ہے ‘ جماعت مسلمہ کو بڑی سختی سے ڈرایا جاتا ہے کہ وہ ہرگز ان لوگوں کے ساتھ خفیہ دوستی نہ رکھے جو اس کے قدرتی دشمن ہیں ۔ اس کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ان دشمنوں کو اپنا راز دان بنائے یا ان پر بھروسہ کرے ‘ جبکہ وہ ان تمام لوگوں کے بھی پکے دشمن ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔ اللہ کی جانب سے آئی ہوئی یہ تنبیہ اور تخویف ایک دائمی اصول ثبت ہوتی ہے اور ہم اس کا مصداق آج بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ایک ایسی شکل ہے جسے قرآن کریم نے ایک زندہ جاوید صورت میں قلم بند کیا ہے لیکن قرآن کے حاملین آج اس سے غافل ہیں ۔ چناچہ ان کی اس غفلت کی وجہ سے ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور آئندہ بھی وہ یقیناً شر و فساد سے دوچار ہوں گے اور ان سے توہین آمیز سلوک کیا جائے گا ‘ اگر وہ نہ سمجھے۔
Top