Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
یاد کرو جب تم میں سے دو گروہ بزدلی دکھانے پر آمادہ ہوگئے حالانکہ اللہ کی ان کی مدد پر موجود تھا ‘ اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “
یہ دو گروہ کون تھے ؟ صحیحین میں اس بارے میں سفیان بن عیینہ کی حدیث نقل ہے ۔ وہ بنو حارثہ اور بنو سلیم تھے ۔ وہ عبداللہ بن ابی کی دغابازانہ حرکت سے متاثر ہوگئے تھے ‘ اس لئے اس حرکت نے اسلامی صفوں میں پہلے ہی قدم پر اضطراب پیدا کردیا تھا ‘ قریب تھا کہ یہ دو گروہ بزدلی دکھاتے اور کمزور ہوکر بیٹھ جاتے لیکن اللہ کی مدد آپہنچی اور اللہ نے ان کے قدم مضبوط کردئیے ۔ جس طرح اس آیت میں صراحت ہے وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا……………” اور اللہ ان کا مددگار تھا۔ “ حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے جابر بن عبداللہ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے یہ آیت ہمارے متعلق نازل ہوئی ہے ۔” یاد کرو جب دو گروہ تم سے بزدلی دکھانے پر آمادہ ہوگئے تھے ۔ “ انہوں نے کہا یہ دو گروہ ہم تھے ‘ بنو حارثہ اور بنو سلیم اور میں ایسا نہیں چاہتا (یا مجھے یہ بات اچھی نہیں آتی ) کہ آیت نازل نہ ہوتی ‘ اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا…………… یعنی اللہ ان کا دوست اور مددگار ہے۔ “ (بخاری ومسلم) یوں دلوں کی گہرائیوں میں خفیہ اور پوشیدہ بات کو ظاہر کردیا جاتا ہے اور اس بات کا علم صرف اللہ ہی کو تھا کہ یہ قبائل بزدلی پر آمادہ ہیں۔ اس لئے کہ یہ کمزوری ان کے دل میں ایک لحظہ کے لئے در آئی تھی اور فوراً ہی اللہ نے انہیں گرنے سے بچالیا ۔ ان کے دل سے اس کمزوری کو دور کردیا ‘ اور اللہ نے اپنی دوستی کی وجہ سے ان کی تائید فرمائی ۔ اور وہ پیچھے لوٹنے کے بجائے آگے بڑھے ۔ اس معرکہ کے واقعات کو بیان کرنے کے دوران اللہ نے اس کو دہرایا تاکہ اس معرکے کے واقعات اور مناظر کو زندہ وتابندہ صورت میں پیش کیا جائے ۔ اور نفوس انسانی کے دلوں میں جو بات کھٹکتی ہے اسے ریکارڈ پر لایا جائے ‘ اور لوگوں کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔ تمہارے دلوں کی باتوں سے خبردار ہے ‘ اسی لئے اللہ نے فرمایا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ……………” اللہ سننے والا ہے اور خبردار ہے ۔ “ تاکہ ان کے دلوں میں یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھ جائے اور انہیں بتایا جائے کہ نجات کی راہ کیا ہے اور ان کے احساس میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اللہ ان کا مددگار ہے ‘ معاون ہے اور ان کا دوست ہے اور کسی بھی کمزوری میں ان کا ہاتھ پکڑنے والا ہے ۔ جب وہ گرنے کے قریب ہوں تو وہ ان کا دستگیر ہے ۔ یہ اس لئے کہا کہ انہیں معلوم ہوجائے کہ کمزوری اور ضعیفی کے وقت انہوں نے کہاں سے نصرت طلب کرنی ہے اور کہاں انہوں نے پناہ لینا ہے ؟ اس لئے انہیں اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ جس جہت کے سوا مسلمانوں کے لئے اور کوئی جہت نہیں ہے ۔ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ……………” اور اہل ایمان کو صرف اللہ ہی پر توکل کرنا چاہئے۔ “ غرض یہ کہ پہلے ہی منظر کی یہ دونوں جھلکیاں نہایت ہی باموقع دکھائی گئی ہیں اور نہایت ہی موزوں فضا میں ‘ جھلکیاں اپنی موسیقی کے زیروبم کو یکجا کرتی ہیں اور نہایت ہی مناسب موقعہ پر اپنے رمزیہ شان کے ساتھ نظروں کے سامنے آتی ہیں ۔ ایسے ماحول میں کہ لوگوں کے دل لبیک کہنے ‘ اثر لینے اور ان حقائق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ ان دوتمہیدی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم دلوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے ‘ ان کی تربیت کرتا ہے اور انہیں صحیح سمت پر لگاتا ہے اور اثر اندازی ایسے واقعات کے بطور تبصرہ کی جاتی ہے کہ وہ ابھی تازہ ہوتے ہیں ۔ اس لئے وہ فرق معلوم ہوجاتا ہے جو روایت قصص اور بیان واقعات میں قرآن کریم اختیار کرتا ہے ‘ اور جو طریق بیان عام انسانی مصادر تاریخ میں اختیار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ انسانی مصادر میں واقعات کی بڑی تفصیل ہوتی ہے ۔ لیکن تفصیلات کے باوجود وہ واقعات دلوں میں نہیں اترتے ۔ نہ ان کا انسانی زندگی سے کوئی تعلق ہوتا ہے ‘ نہ ان سے دلوں کو زندہ کرنا ‘ انہیں گرمی عطا کرنا مقصود ہوتا ہے اور نہ انسانوں کی ہدایت وتربیت مطلوب ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید اپنے بیان قصص میں ان امور کو پیش نظر رکھتا ہے اور نہایت ہی مستحکم اسلوب بیان ہے ۔ یوں اس معرکے کے بیان کا آغاز ہوتا ہے جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب نہ ہوئی اگرچہ وہ فتح ونصرت کے قریب پہنچ گئے تھے ۔ اس معرکے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ایک شخص (عبداللہ بن ابی ) اپنے نظریہ حیات کے مقابلے میں اپنی ذات اور شخصیت کو ترجیح دیتا ہے اور اس کی اتباع میں وہ سب لوگ اس کے پیچھے چلے جاتے ہیں جن کے ذاتی اعتبارات ان کے عقیدے کے مقابلے میں زیادہ اہم تھے ۔ پھر آغاز ہی میں دو گروہ بھی حالات سے قدرے متاثر ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ صالح تھے اور اس معرکے کا انجام یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی فوجی ڈیوٹی کو چھوڑ کر مال غنیمت کے لالچ میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کی وجہ سے ان لوگوں کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے جنہوں نے اس معرکے میں قربانی کے اعلیٰ نمونے پیش کئے ۔ محض اس لئے کہ بعض لوگوں نے نظم کی خلاف ورزی کی یا ان کے نظریہ ٔ حیات میں ابھی تک کچھ کمزوریاں موجود تھیں۔ اس سے پہلے کہ اس معرکے کی تفصیلات بیان کی جائیں اور ان پر تبصرہ کیا جائے ‘ جس میں مسلمانوں کو شکست کھانی پڑی ‘ اس معرکے کا ذکر کیا جاتا ہے ‘ جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی یعنی غزوہ بدر تاکہ اس شکست کے ساتھ اس فتح ونصرت کو بھی وہ پیش نظر رکھیں ۔ اور دونوں کا موازنہ کرکے فتح وشکست کے اسباب پر غور کریں ۔ اور یہ بھی یقین سے جان لیں کہ فتح ونصرت کو بھی وہ پیش نظر رکھیں ۔ اور دونوں کا موازنہ کرکے فتح وشکست کے اسباب پر غور کریں ۔ اور یہ بھی یقین سے جان لیں کہ فتح ونصرت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی کچھ پیش آتا ہے جو اللہ کے ہاں مقرر ہوتا ہے۔ اور تقدیر الٰہی جس طرح نصرت میں کارفرماہوتی ہے ‘ اسی طرح شکست بھی مقدر ہوتی ہے ۔ فتح کی تہہ میں حکمت ہوتی ہے اور شکست کے پس پشت بھی اللہ کی حکمت کار فرماہوتی ہے ۔ اور دونوں حالات میں نتیجہ کار اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ‘ ہر حال میں وہی ہے جو مسبب الاسباب ہے۔
Top